کیا مجھے محبت ہے؟
- Baithak | بیٹھک
- Jun 24, 2020
- 9 min read
Updated: Jun 25, 2020
تحریر: سبین محبوب /سبزواری
" صائقہ ذرا پانی تو پلاؤ مجھے" میں نے وہیں صوفے پر بیٹھے بیٹھے گھر میں کام کرنے والی چھوٹی بچّی کو آواز لگائی۔
" نہ میری بچّی یہ چھوٹے چھوٹے کام تو خود کر لیا کرو، نہ اس معصوم یتیم کو کہا کرو" نانو نے مجھ کو ٹوکا۔

"ارے نانو کام کرنے کے لیئے ہی تو رکھا ہے اسے، اگر خود ہی کام کرنے ہیں تو اس کا کیا فائدہ؟" مجھے نانو کا ٹوکنا اچھا نہیں لگا۔
" میرا بچہ، یہ بن ماں باپ کی بچی ہے، دل دُکھتا ہوگا اس کا۔اسے اپنے گھر کا فرد سمجھو، میرا تو دل کٹ جاتا ہے اُسے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے کام کرتا دیکھ کر۔ایک دم سے نبی پاک ﷺ کا خیال آتا ہے، ایسی ہی چھوٹی عمر میں یتیم ہو گئے تھے وہ، دل کتنا روتا ہوگا ان کا ۔" یہ کہتے کہتے نانو کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور میں ہمیشہ کی طرح تھوڑا زِچ ہو گئی۔
مجھے تو سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ نانو کو ایک دم سے رونا کیسے آجاتا ہے۔
صائقہ ہماری ماسی کی بیٹی ہے، اس کی پیدائش کے چند ماہ بعد ہی اس کے باپ کا انتقال ہوگیا تھا اور ابھی سال پہلے ہی ماسی روڈ پار کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گئی تھی۔ صائقہ کو امّی نانو کے کہنے پر اپنے گھر لے آئی تھیں، اور اُس سے گھر کے چھوٹے موٹے کام کروا لیتی تھیں مگر نانو کو اس بات پر بہت اعتراض تھا۔ وہ امی سے کافی دن ناراض سی رہیں۔ انکا خیال تھا کہ صائقہ کو گھر کے فرد کی طرح سمجھا جائے اس سے اتنی چھوٹی عمر میں کام کاج نہ کروایا جائے،امی نے صائقہ کو گھر کے پچھلے حصّے والا کواٹر دیا ہوا تھا تاکہ وہ رات کو وہاں سو جائے ، اس بات پر نانو نے امّی سے کہا :" حد کرتی ہو تم صبا، گھر کے پچھواڑے ڈال دیا آٹھ سال کی بچی کو، ڈرتی ہوگی بیچاری، رات کو اس کا بسترہ میرے کمرے میں لگوا دیا کرو، ایک کونے میں سو جائے گی۔ابھی ماں گئی ہے اس کی، ایک ایک پل اس کو یاد کرتی ہوگی ، اب کیا اکیلے آنسو بہائے وہ؟"
جب سے بڑے ماموں دبئی شفٹ ہوئے تھے ، نانو زیادہ تر ہمارے یہاں رہتی تھیں۔ امّی نے بہت اصرار کر کے ماموں کو راضی کیا تھا کہ نانو کو یہاں رہنے دیں، یہاں ملنے ملانے والے ہیں، وہاں دبئی میں تو اکیلی پڑ جائیں گی۔
نانو کا ہمارے یہاں دل بھی خوب لگتا تھا کیونکہ میرے دونوں چھوٹے بھائی سارا وقت نانو کے ارد گرد منڈلاتے رہتے تھے۔
میرے دونوں بھائی روز شام ہوتے ہی نانو کے ساتھ باہر لان میں بیٹھ جاتے اور جانے کہاں کہاں کے قصّے کہانیاں سنتے رہتے ، صائقہ بھی ان دونوں کے ساتھ وہیں بیٹھ جاتی تھی۔ میں اکثر دیکھتی تھی کہ کہانی سناتے سناتے نانو کی آواز رُندھ جاتی اور آنکھیں آنسوؤں سے لبالب بھر جاتیں۔ میں سوچتی تھی کہ ، "اللہ جانے کیا قصّے کہانیاں سناتی ہیں نانو ان بچوں کو کہ یہ تینوں بھی بالکل بُت سے بیٹھے سُن رہے ہوتے ہیں اور نانو بھی بے تکان بولے چلے جاتی ہیں۔ کہانی ختم کرتے وقت نانو ہمیشہ دوپٹّے کے پلّو سے اپنی آنکھیں صاف کرتی ہوئی اُٹھتی ہیں۔"
میں نے یونہی ایک دن اشعر (بھائی) سے پوچھا، " کیا سنتے رہتے ہو نانو سے شام کو تم لوگ؟"
"ہم، ہم پیارے نبی ﷺ کی باتیں سنتے ہیں" اشعر نےآنکھوں میں چمک لاتے ہوئے بتایا۔
" تو ایسی کیا باتیں ہوتی ہیں کہ تم لوگ ہلتے تک نہیں ہو" میں نے تشویش سے پوچھا۔
" نبی پاک ﷺ کے بچپن کی ، ان کی بہادری کی باتیں ہوتی ہیں، پتا ہے باجی نانو اس طرح بتاتی ہیں کہ لگتا ہے کہ میں وہیں ہوں، نبی پاکﷺ کے ساتھ۔" اشعر ایک دم سے پُر جوش ہوکر بولا، اسکے رونگھٹے کھڑے ہوتے محسوس ہوئے مجھے۔
"اور پتا ہے باجی نانو بتا رہی تھیں کہ ہم جنّت میں نبی پاک ﷺ سے ملیں گے۔کتنا مزہ آئے گا نا؟ مگر ایک بات ہے ، اس کے لیئے ہم کو ان کی طرح اللہ کے بتائے ہوئے رستے پر چلنا ہوگا" اشعر تو جیسے شروع ہی ہوگیا۔
"ہاں تو چلتے تو ہیں اللہ کے بتائے ہوئے رستے پر، نماز پڑھتے ہیں ، روزے رکھتے ہیں اور، اور بھی بہت سے کام کرتے ہیں" میں نے ذرا رُکھائی سے کہا۔
" نہیں باجی ویسے تو نہیں کرتے نا جیسے نبی پاکﷺکرتے تھے، بہت دل لگا کر،تب کہیں جا کر جنّت ملے گی۔ آپ کی طرح تھوڑی کہ نماز بھی پڑھ لی اور گانے بھی سُن لیئے۔" وہ تیزی سے یہ کہتا ہوا بھاگا کیونکہ اُسکو پتا تھا کہ ایک جھاڑ پڑے گی اس کو اب میری ۔
میں کالج سے واپس آئی تو دیکھا کہ نانو خانساماں کو پیسے دے رہی ہیں اور ساتھ ہی کچھ ہدایات بھی ، میں ان کو سلام کرتی ہوئی اپنے کمرے میں آ گئی، کپڑے تبدیل کرکے میں کھانا کھانے باہر گئی تو خانساماں کھانا لگا چکا تھا ، ہم سب کھانا کھا رہے تھے کہ خانساماں نے آکر نانو سے کہا، " وہ جی ڈرائیور نے دیگ پہنچا دی ہے"
"اللہ تم دونوں کو جزاءِ خیر دے بیٹا" نانو نے خانساماں کو دعا دی۔
میں نے نظروں ہی نظروں میں امّی سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے، نانو نے میرے تجسّس کو بھانپتے ہوئے کہا،"آج یتیم خانے میں کھانا بھجوایا ہے"
"کیوں ، کوئی خاص دن ہے کیا؟ " میں نے پوچھا
"نہیں بیٹا بھلائی کے لیئے کسی خاص دن کا انتظار تھوڑی کرتے ہیں، بس کل گھر میں دعوتی کھانا بنا تھا تو سوچا آج اُن معصوموں کو دیگ بھجوا کر اللہ رب العزّت کا شکر ادا کر دوں۔ہمارے رسول ﷺ بہت خوش ہوتے تھے جب کوئی بچوں سے خاص کر یتیم بچوں سے بھلائی کرتا تھا تو۔ اُنہوں نے تو ماں باپ کا پیار دیکھا ہی نہیں تھا نا، وہ خوب سمجھتے تھے اس کمی کو، اس خلا کو، کہ کیسا لگتا ہے سر پر ماں باپ کا سایہ نہ ہونا۔" ہمیشہ کی طرح نانو کی آنکھوں میں سمندر نظر آنے لگا۔
"نانو، ایک بات پوچھوں آپ سے؟" میں نے نانو سے کہا۔
"ہاں بیٹا پوچھو" نانو نے آنسو پیتے ہوئے کہا۔
"یہ آپ کو نبی کریم ﷺ کے ذکر پر رونا کیوں آ جاتا ہے؟ ہم تو روز ہی اسلامیات میں اُن کے بارے میں پڑھتے ہیں،نہ ہم کو رونا آتا ہے نہ ہی ہماری ٹیچر کو۔" میں نے آج آخر دل میں چُھپا سوال نانو سے پوچھ ہی لیا۔
نانو مسکرانے لگیں، پھر گویا ہوئیں،"بیٹا تم اُن کے بارے میں صرف پڑھتی ہو، جبکہ میں نے جذب کیا ہے۔"
"ایں؟" میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے ان کو دیکھا۔
"کھانا کھا لو پھر میرے کمرے میں آنا تو بات کریں گے" نانو نے اپنی توجّہ کھانے کی طرف مبذول کر لی۔
کھانے سے فارغ ہو کر میں اپنے کمرے میں چلی گئی اور سونے لیٹ گئی۔ شام کو آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اشعر اور احمر زور زور سے اذان دے رہے تھے اور بار بار نانو سے پوچھتے جاتے " ایسے کرتے تھے نا وہ نانو؟"
میں کچھ نہ سمجھتے ہوئے منہ ہاتھ دھو کر جوس کا گلاس ہاتھ میں لیئے لان میں چلی آئی۔
نانو نے مجھ کو مسکرا کر دیکھا، میں وہیں اُن کے پاس بیٹھ گئی۔اشعر اور احمر فُٹ بال کھیلنے میں مصروف ہو چکے تھے۔
"یہ دونوں اذان کیوں دے رہے تھے نانو؟" مین نے پوچھا
"ارے دونوں ، حضرت بلال کی طرح اذان دینا چاہ رہے تھے، آج ان کو حضرت بلال کے بارے میں بتایا ہے نا، تو بہت پُر جوش تھے" نانو نے اُن دونوں کو دیکھتے ہوئے بتایا۔
"بڑی ہی محبت تھی حضرت بلال کو ہمارے نبی ﷺ سے، اور ہوتی کیوں نہ، میرے نبی نے اُن کو کبھی غلام سمجھا ہی نہیں، بہت خیال رکھا انکا اور بہت محبت دی انکو۔" نانو نے بتایا
مجھے دوپہر کو ہونے والی گفتگو کا خیال آیا تو میں نے پوچھا،" آپ کہ رہی تھیں نا کہ آپ مجھے بتائیں گی کی یہ جذب کرنا کیا ہوتا ہے"
"ہاں، تم دیکھتی ہو نا ان بچوں کو جب شام کو یہ بیٹھ کر نبی پاک ﷺ کی باتیں سنتے ہیں تو؟" نانو نے پوچھا
"جی، روز دیکھتی ہوں" میں نے جواب دیا
"کیا غور کیا تم نے؟ " نانو نے پھر پوچھا
"یہی کہ یہ تینوں آپ سے کہانیاں سن رہے ہوتے ہیں بالکل گم سم بیٹھے" میں نے کہا
"کہانیاں نہیں بیٹا ، نبی ﷺ کی سچی باتیں" نانو نے میری تصحیح کی۔
"کبھی خیال آیا کہ کیوں ایک بھی بچہ پلک تک نہیں جھپک رہا ہوتا، جیسے ہی کوئی واقعہ مکمل ہوتا ہے، نانو اور سنائیں کی گردان لگا دیتے ہیں" نانو نے پوچھا
" جی میں نے غور کیا تھا اور تھوڑی حیران بھی ہوئی تھی کہ آپ کونسی باتیں بتاتی ہیں کہ یہ تینوں کے تینوں ایسے بیٹھے ہوتے ہیں جیسے آس پاس کی کوئی خبر ہی نہ ہو" میں نے جیسے آج اس بات کا راز پا لینا چاہا۔
" بیٹا باتیں تو وہی ہوتی ہیں جو تم روز کالج میں پڑھ کر آتی ہو، مگر جب میں بتاتی ہوں تو اس میں میری اپنے نبی سے محبت اس میں شامل ہوتی ہے۔میں بچوں کو وہ تمام واقعات محسوس کراتی ہوں، جیسے کہ وہ محسوس کریں اس وقت کو جب نبی کریم ﷺ اپنی والدہ کی قبر پر سے اُٹھنا نہیں چاہ رہے تھے ، وہ روتے جا رہے تھے اور ان کی ملازمہ ان کو بمشکل وہاں سے اٹھا پائی تھی، وہ اس وقت محض چھ سال کے تھے۔میں بچوں سے کہتی ہوں کہ وہ خود کو اُنکی جگہ پر رکھ کر سوچیں، ایسے ہی جب طائف کی گلیوں میں ان پر ظلم ہو رہا تھا اور وہ لہو لہان ہو گئے تھے، تو اس تکلیف کو محسوس کریں۔ اس کو کہتے ہیں جذب کرنا، یعنی ہر بات کو اپنے اوپر نا صرف محسوس کرنا بلکہ اندر تک اتار لینا۔"
" میری بچّی تم پوچھتی ہو نا کہ مجھ کو رونا کیوں آجاتا ہے نبی پاک ﷺ کے ذکر پر، تو بیٹا وہ اس لیئے کہ ہم نے ان کی محنت اور قربانیوں کا حق ادا نہیں کیا،وہ تو جنّت کے سردار ہیں ، انکو تو جنّت ملنی ہی ملنی ہے، یہ پتھر تو ہمارے لیئے کھائے انہوں نے، فاقے تو ہمارے لیئے کاٹے، تکلیفیں تو ہمارے لیئے جھیلیں کہ ہم کو اور ہمارے بعد آنے والی نسلوں کو اسلام کا سایہ میّسر آئے اور ہم جنّت پا سکیں۔ اپنے آخری وقت میں بھی وہ اپنے رب سے ہمارے لیئے فلاح مانگ رہے تھے ، مگر میری بچّی ہم تو بڑے ہی بے وفا نکلے، سب کچھ بھلا بیٹھے، ان کی تکلیفیں ان کے دکھ سب فراموش کر دیئے ہم نے۔جن جن کاموں سے وہ روکتے تھے ہم وہ سب کام بڑی ڈھٹائی سے کرتے ہیں، اب تم ہی بتاؤ کہ اس ڈھٹائی کا کیا مطلب ہوا؟ یہی نا کہ ہم نے ان کا طائف کی گلیوں میں لہولہان ہو کر بیہوش ہونا بُھلا دیا، ہم نے بُھلا دیا کہ اُحد کے میدان میں ان کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے۔
"ہمیں ان سے محبت ہے ہی نہیں"
"محبت ہوتی تو ہمارے اعمال ان کی سنت کے مطابق ہوتے ، پورے نہ سہی ہم تھوڑے سے تو ان کے طور کے تابع ہوتے۔ "
"محبت کا پیمانہ یہ ہے کہ جس سے محبت ہو انسان اس کا پرتو نظر آئے"
"وہ کیسے نانو؟" جیسے ہی نانو سانس لینے کو رکیں میں نے فوراً سوال داغ دیا۔
" دیکھو نا ، اب کل تمہارے بابا کی ترقی کی خوشی میں تمہاری ماما نے ہر وہ چیز پکائی جو تمہارے بابا کو پسند ہے۔ اسکے علاوہ بھی، تمہاری ماما وہی رنگ پہنتی ہیں جو تمہارے بابا کو پسند ہیں، وہی کام کرتی ہیں جن سے تمہارے بابا خوش ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ شادی سے پہلے تمہاری ماما بال لمبے کرنے کے ٹوٹکے کرتی رہتی تھیں، شادی کے بعد پتا چلا کہ تمہارے بابا کو چھوٹے بال پسند ہیں، تو فوراً بال کٹوا لیئے اور ساتھ ہی یہ کہا کہ مجھے لمبے بالوں میں گرمی لگتی ہے۔یعنی یہ ہے محبت کا عالم ۔۔ ہم سب ایسے ہی کرتے ہیں بیٹا ، جس سے محبت ہوتی ہے اس کی خوشی کے لیئے اس کی پسند کے کام کرتے ہیں۔اب جانچ لو خود کو کہ کتنی محبت ہے تم کو نبی پاک ﷺ سے۔
کتنے کام نبی پاک ﷺ کی سنّت کے مطابق کرتے ہیں ہم؟ موسیقی کو حرام بتایا آپؐ نے ، محرم نامحرم کا فرق بتایا، جھوٹ پر لعنت بتائی تو کیا ہم ان باتوں کا خیال رکھتے ہیں؟ نہیں نا؟ اسی لیئے تو کہتی ہوں محبت نہیں ہے دل میں، یہ جو موسمی محبت جاگتی ہے ناں ربیع الاول میں یا رمضان میں یہ وہ محبت تھوڑی ہے جس کا تقاضہ کیا گیا ہے۔۔ بس اسی لیئے آنکھیں اور دل دونوں بھر آتے ہیں میرے۔
" نانو آجکل کے زمانے میں بہت مشکل ہے ان سب پر عمل کرنا، اب کیا دنیا کے ساتھ چلنا چھوڑ دیں؟" میں نے کچھ الجھتے ہوئے کہا۔
" نہیں بیٹا یہ سب تو بہانے ہیں، انسان بڑا ہی بہانے باز واقع ہوا ہے ، ہر بات کے لیئے بہانہ تیار ہوتا ہے۔
کیا میرے رب کو پتا نہیں تھا کہ آنے والا زمانہ کیسا ہے؟ وہ تو عالم الغیب ہے وہ سب جانتا ہے پھر بھی اس نے قرآن کو رہتی دنیا ک کے لیئے ضابطہ حیات بنایا ہے۔ ہمارے لیئے اس پر عمل کرنا کوئی مشکل نہیں ہے، بس ہم عمل کرنے والے بنیں تو سہی۔کوشش تو کریں کہ اللہ کا ایک ایک فرمان رگوں میں خون بن کر دوڑے جبھی تو روزِ محشر کہ سکیں گے کہ ہاں ہم مومن ہیں، ہم کو نبی پاک ﷺ سے محبت ہے وہ ہم کو دنیا میں ہر رشتے سے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ ہم ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی چھوڑنے والے بنیں تو سہی، آللہ سب آسان کر دیتا ہے۔"
"بیٹا نبی سے محبت نہیں تو سمجھو زندگی ضائع اور برباد کردی ہم نے"
آج نانو کے ساتھ ساتھ میری آنکھیں بھی فرطِ جذبات سے لبریز تھیں۔ آج دل میں یہ ہوک سی اُٹھی تھی کہ جس محمدﷺ کو کفار تک کہتے ہیں کہ :" دنیا کے بہترین انسان محمدﷺ ہیں" میرا دل ان کی محبت سے خالی تو نہیں ہے۔آج میں بھی اپنے دل سے پوچھ رہی تھی کہ کیا مجھے محبت ہے؟
ما شا اللہ لا قوة الا بالله 👍 بہت خوب صورت اندازِ تحریر ہے۔ اللہ ہم سب کو سچا “اُمتؔی” بننے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین
This story was really good!
Wow amazing 👍