رنگِ حیات
- Baithak | بیٹھک
- Jan 15, 2022
- 12 min read
تحریر: سبین محبوب / سبزواری

ٹرن ٹرن ٹرن۔۔۔۔۔۔۔۔
راحیل: کھولو بھی۔۔
ٹرن۔۔ٹرن۔۔۔۔
تانیا: کیا ہے بھئی، صبر نہیں ہے کیا؟ جل جائے گی گھنٹی۔۔
راحیل: جلدی کرو ، شمس آ رہا ہے۔۔
تانیا نے غصّے سے دروازہ کھولتے ہوئے راحیل کو گُھورا
تانیا: کیا مسئلہ ہے؟
راحیل تیزی سے گیٹ کی اوٹ میں چھُپتے ہوئے
راحیل: جلدی سے گیٹ بند کر دو
تانیا: ہوا کیا ہے؟
راحیل: شمس کو پیٹ کر آ رہا ہوں اور وہ میرے پیچھے آ رہا ہے، کہہ رہا ہے کہ اعزاز بھائی سے شکایت کروں گا۔
تانیا: ہاں تو ایسی حرکتیں کرتے ہی کیوں ہو، اچھا ہے پِٹو تم اعزاز بھائی سے۔
راحیل: فضول میں نہیں پیٹا ہےاُسکو، میں اپنے دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا تو یہ وہاں بیٹھ کر مجھ پر آوازیں کَس رہا تھا، بار بار کہہ رہا تھا اوئے کَلُّو ، اوئے کَلُّو۔۔۔ بس مجھ کو غصّہ آ گیا سارے دوستوں کے سامنے میرا مذاق اُڑا رہا تھا، میں اس کے پیچھے بھاگا اور اسکے گھر جا کر پیٹ کر آیا ہوں۔دماغ ٹھکانے پر آگیا ہوگا اسکا۔
تانیا: آنے دو ذرا اُس کو ابھی دیکھتی ہوں۔
شمس : دروازہ کھولیں تانیا باجی، مجھے اعزاز بھائی سے بات کرنی ہے۔
تانیا: کُھلا ہوا ہے، تم سے ڈر کر بند نہیں کیا ہے، ذرا اِدھر تو آؤ مجھ سے تو بات کرو ناں، پھر کر لینا بھائی سے بھی بات۔
تانیا نے اپنی فوکسی کی ہیڈ لائیٹ کی مانند آنکھوں کو مزید نکالتے ہوئے کہا۔
شمس: نہیں آپ سے نہیں کرنی بات مجھ کو، آپ ہٹیں سامنے سے۔۔۔ دیکھیں کتنا مارا ہے آپ کے بھائی نے مجھ کو۔
تانیا: میرا بھائی۔۔۔ نام نہیں پتا کیا تم کو اُسکا جو آپ کا بھائی کہ رہے ہو۔۔۔ اچھا چلو وہی کہ دو جو ابھی کرکٹ کے گراؤنڈ میں کہ رہے تھے اُس کو۔
یہ سن کر شمس ایک دم سٹپٹا گیا۔۔
شمس: میں۔۔ میں تو کچھ نہیں کہ رہا تھا۔۔
تانیا: اچھا بیٹا جی اب جھوٹ بھی بولو گے۔۔ ابھی بلاتی ہوں بھائی کو اور بتاتی ہوں کہ تم کس نام سے پکارتے ہو راحیل کو۔ ابھی تو صرف راحیل نے ٹھکائی لگائی ہے۔۔ یہ سن کر اعزاز بھائی اور میں ملکر جو دھنائی تمہاری کریں گے ناں تو لگ پتا جائے گا۔۔ خیریت چاہتے ہو تو پھوٹو یہاں سے۔۔۔
شمس: یہ کیا بات ہوئی ، پِٹوں بھی میں اور دھمکی بھی مجھ کو۔
تانیا: بھائی۔۔یہ شمس آیا ہے ، آپ سے کچھ کام ہے اندر لے آؤں۔۔ ملکر اسکا کام کر دیں گے
تانیا نے دھمکانے والے انداز میں شمس کو دیکھتے ہوئے اعزاز بھائی کو پیغام دیا (جو کہ گھر پر تھے ہی نہیں)۔
یہ سنتے ہی شمس اپنا سا منہ لے کر چلا گیا۔
تانیا: تم شکر کرو کہ بھائی گھر پر نہیں ہیں ، ورنہ اچھی کلاس ہو جاتی تمہاری۔
تانیا نے راحیل سے کہا۔
راحیل: ایک تو تمہارا پتا نہیں چلتا ، ابھی تو شمس کو بول رہی تھیں اور اس کے جاتے ہی میرے اوپر شروع ہو گئیں۔
تانیا: بیٹا جی بچا لیا تم کو۔۔ اس احسان کا بدلہ قرض رہا تم پر۔
راحیل: واہ بھئی واہ۔۔ کیسا قرض کوئی کام نہیں کروں گا اس کے بدلے میں۔ زبردستی کے احسان کر کے اپنے کام کرواتی رہتی ہو۔ ابھی پرسوں ہی برتن دھوئے تھے پتا نہیں کونسے احسان کے بدلے میں۔
تانیا: میری مدد لو گے تو ایسے تو نہیں جانے دوں گی ناں۔
تانیا نے دھونس جماتے ہوئے کہا۔
تانیا اور اسکا گھرانہ انہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے رونق کدہ محسوس ہوتا تھا۔ یہ پانچ بہن بھائی تھے ، ہر ایک اپنی جُدا طبیعت اور مزاج کا رنگ لیئے تھا۔ سب سے بڑی آئمہ ، جو بڑے ہونے کے ناطے اپنا رعب جمائے رکھتی، اسکے بعد اعزاز جو کہ بھائیوں میں سب سے بڑا ہونے کے کی وجہ سے خاصا ذمہ دار اور سمجھدار مزاج کا تھا، اعزاز سے چھوٹی تانیا جس میں شوخی اور شرارتی پن بھرا تھا، اُس سے چھوٹا فیاض جو کہ بہت نفاست پسند ، ذہین اور کم گو اور آخر میں آتا ہے راحیل ، جو سب سے چھوٹا ہونے کے ناطے سب کا لاڈلہ ، شوخ اور تھوڑا لا پرواہ سا۔ والد کا سایہ سر پر نہ ہونے کی وجہ سے تانیا کی امّی پر دہری ذمّہ داری تھی جو اعزاز نے بخوبی بانٹی ہوئی تھی۔ اپنے تینوں چھوٹے بہن بھائیوں پر اُسکی خاص نظر ہوتی تھی اور یہ تینوں بھی اعزاز کی بہت عزت کرتے تھے۔
فیاض تو کم ہی شرارتوں اور تخریبی سرگرمیوں میں حصّہ لیا کرتا تھا۔ یہ تانیا اور راحیل ہی تھے جو ایک دوسرے کو ایسی حرکتوں میں سہارا دیتے تھے۔ تانیا کو ہر اس کام کا شوق تھا جو کہ اس کے بھائی کرتے تھے۔ اور ایسے تمام کاموں کے لیئے وہ فیاض اور راحیل کے دوستوں کو بھی شامل کرلیتی تھی۔ ایسا ہی ایک بار جب ہوا جب اس نے لایبریری بنائی۔
تانیا: اللہ اتنے رسالے جمع ہو گئے ہیں اور امّی ہیں کہ کوئی بھی ردّی میں دینے ہی نہیں دیتیں۔ ردّی والے کو دوں تو اتنے پیسے مل جائیں گے کہ مزے کی پارٹی ہو جائے، لیکن نہیں مجال ہے جو ان پرانے رسالوں کو کوئی ہاتھ بھی لگائے۔ بھئی اب پڑھ لیئے ہم نے اب ہم بڑے بھی ہو گئے اب کیا کرنا ان کا۔
تانیا بچوں کے رساے "نونہال " کا ڈھیر دیکھ کر بڑبڑائے جا رہی تھی۔ کہ اچانک اس کے دل میں ایک خیال آیا۔
تانیا:ارے واہ ! یہ پہلے کیوں نہیں سوچا میں نے۔
راحیل: کیا شیطانی خیال آگیا جو آنکھیں اتنا چمک رہی ہیں؟
راحیل جو بہت دیر سے یہ بے ربط کی بپتا سُن رہا تھا آخر بول ہی پڑا۔
تانیا: شیطانی نہیں تعلیمی۔
راحیل: ہا ہا ہا۔۔۔۔اچھا مذاق کر لیتی ہو۔
تانیا: تم جیسے لوگوں کی ہی وجہ سے علم نہیں پھیل سکتا۔یہ نہیں کہ بندہ پوچھ ہی لے کہ ایسا کیا آئیڈیا آیا ہے جو میں اتنا خوش ہوں۔ لیکن نہیں بھئی ان کو تو بس مذاق اڑانا آتا ہے۔
راحیل: اچھا اب بتاؤ کیا آیا ہے اس دماغِ خاص میں جس کی وجہ سے آنکھوں میں کچھ بھوکوں والی چمک ہے۔
تانیا: بکواس بند کرو۔۔ ایسی کوئی بھوکی وھوکی نہیں ہوں میں۔ دیکھو میں بتاتی ہوں۔ یہ جو تم ڈھیر دیکھ رہے ہو نا ان پُرانے سے رسالوں کا ان سے ہم کمائی کر سکتے ہیں۔۔ میرا مطلب ہے کہ ان کے ذریعے ہم لوگوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا کر سکتے ہیں۔
راحیل: کمائی۔۔۔ ہمم ۔۔ میں نہ کہتا تھا کہ کوئی شیطانی خیال آیا ہے دماغ میں۔
تانیا: ارے بابا پوری بات تو سن لو۔ دیکھو ہم ان رسالوں پر اچھا سا کَوَر چڑھائیں گے، پھر ان پر نمبرز ڈالیں گے پھر ان کو وہ جو ہمارا پُرانا سا شیلف ہے نا اُس میں طریقے سے رکھیں گے اور اس پر بورڈ لگائیں گے " تانیاز لائبریری"، کیسا؟
راحیل: یہ اتنی محنت تم ایسے ہی تو نہیں کر رہیں، یہ لائبریری کے پیچھے جو مقصد ہے نا وہ بتاؤ۔
تانیا: بتایا ناں، لوگوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا کرنا۔
راحیل: اور جناب کے یہ بچوں کے رسالے پڑھنے کون آئے گا، کسی کو کیا پتا کہ یہاں راتوں رات لائبریری کُھل گئی ہے۔
تانیا: تم ہو ناں، تم بتاؤ گے سب کو۔ تانیا نے بلا کی بے نیازی سے کہا۔
راحیل: میں؟ ۔۔ میں کس خوشی میں بھئی؟ میں ویں نہیں کررہا یہ کام۔ گلی گلی جا کر آواز لگاؤں " آؤ لوگوں کتابیں پڑھ لو ، بچوں کا نونہال پڑھ لو"۔۔ نا بابا مجھ کو تو بھول جاؤ اس کام کے لیئے۔
تانیا: ارے ایسے کیسے بھول جاؤ، اور آواز لگانے کو کون کہ رہا ہے، اپنے دوستوں کو لے کر آؤ ، اُن کو دکھاؤ کہ کتنا اچھا ذخیرہ ہے ہمارے پاس ، پھر وہ اپنے جاننے والوں میں ذکر کریں گے ، اس طرح لوگ آنا شروع ہو جائیں گے۔
راحیل: پھر بھی مجھ کو دور ہی رکھو اس کام سے۔۔ پتا نہیں مقصد کیا ہے تمہارا۔۔ پورا پلان تو بتاتی نہیں ہو، میں فضول میں مارا جاؤں گا۔
تانیا: کیا مطلب ہے فضول میں مارا جاؤں گا۔۔ ہر بار میں نے ہی بچایا ہے تم کو مار کھانے سے۔۔ آئے بڑے " فضول میں مارا جاؤں گا" ۔ تم شرافت سے جا رہے ہو کل سب کے گھر اور اُن کو لے کر آ رہے ہو، سمجھے؟ کل لائبریری کا افتتاح ہے۔ تانیا کے فخر سے گردن اکڑاتے ہوئے کہا۔
راحیل: آیئں۔۔۔ ابھی کچھ ہوا ہے نہیں اور افتتاح بھی ہوگیا۔
تانیا : میں کرلوں گی سب تم بس کل اپنے سارے دوستوں کو لے کر آ رہے ہو۔
راحیل بیچارا کیا کرتا، جانتا تھا کہ ہر موقع پر تانیا اس کا ساتھ دیتی ہے۔ ابھی شمس والا واقعہ بھی تازہ ہی تھا، جس میں اس کی ٹھیک ٹھاک کُٹ لگ جانی تھی اعزاز بھائی کے ہاتھوں۔ اگلے دن راحیل اپنے دوستوں کے گھر گیا اور لائبریری کے افتتاح میں آنے کا کہا، اُس نے لائبریری کا نقشہ کچھ ایسا کھینچا تھا کہ سب نے ہی آنے کی حامی بھر لی۔
اگلے دن شام چار بجے سے راحیل کے دوست آنا شروع ہوگئے، جن کو راحیل نے تانیا کی ہدایت کے مطابق باہر ہی انتظار کرنے کو کہا۔
راحیل: ابھی یہیں انتظار کرو، تانیا نے کہا ہے کہ افتتاح کے لیئے سب ایک ساتھ ساڑھے چار بجےلائبریری میں داخل ہونگے۔
ساڑھے چار بجتے ہی تانیا نے گیٹ کھولا اور سب کو اندر بلایا۔
تانیا: آجاؤ سب اندر آجاؤ، فیتہ کٹنے کا وقت ہو گیا ہے۔
راحیل اندر ہی اندر تانیا سے مرعوب ہو رہا تھا کہ اتنے کم وقت میں اس نے کتنا انتظام کر لیا کہ باقاعدہ فیتہ بھی کٹے گا۔
تانیا: شاباش سب اوپر آ جاؤ چھت پر۔
راحیل کو ذرا حیرت ہوئی، یہ چھت پر کیوں بلا رہی ہے، اوپر تو بس ایک کمرہ ہے جس میں کباڑ جمع ہے۔
راحیل: تانیا ، یہ اوپر کہاں لے جا رہی ہو ؟ (راحیل نے تانیا کے کان میں سرگوشی کی)۔
تانیا: آجائیں سب اوپر لائبریری میں آجائیں۔ ( تانیا نے راحیل کی بات سُنی اَن سُنی کرتے ہوئے کہا)۔
سارے دوست چھت پر جمع ہو گئے اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگے کہ کہاں ہےلائبریری۔
تانیا: آئیں نا، کمرے میں تشریف لائیں۔
تانیا سب کو اس اسٹور نما کمرے میں لے گئی۔ جو کہ بلا شبہ کباڑ سے بھرا تھا مگر اس کا ایک کونہ تانیا نے ماسی سے صاف کروا کر نیچے دری بچھا کر اس پر کتابوں کا شیلف رکھا تھا۔ اس کے ایک طرف چھوٹی سی ٹیبل پر ایک پیالے میں ٹافیاں اور ایک طرف ایک کاپی اور پین تھا۔
تانیا: تو جناب یہ ہے ہماری لائبریری جو میں نے خاص طور سے آپ کے لیئے بنائی ہے تاکہ آپ سب کو اچھی اچھی کتابیں پڑھنے کو ملیں۔ آپ میں پڑھنے کا شوق پیدا ہو۔
دوست: یہ کیسی لائبریری ہے، اس میں بیٹھنے کی تو کیا کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں ہے۔
تانیا: یہ " سٹینڈنگ لائبریری " ہے۔مجھے یقن تھا کہ تم لوگوں کو اس کے بارے میں نہیں پتا ہوگا اسی لیئے میں نے تم لوگوں کو شعور دینے کے لیئے بنائی ہے ۔ تم لوگ یہاں سے کتابیں لوگے ، اس کاپی میں اندراج کراؤ گے اور گھر جا کر پڑھو گے۔
دوسرا دوست: ارے واہ یہ تو بہت اچھا ہے۔
تانیا: چلو شاباش کتابیں منتخب کرو تاکہ میں اندراج کروں۔
راحیل کو پہلی بار تانیا کے اس اقدام پر فخر محسوس ہو رہا تھا۔ وہ بھی اپنے دوستوں کی مدد کرنے لگا کتابوں کے انتخاب میں۔
تانیا: اچھا بھئی، لائن بنا کر آؤ ، ایسے سر پر سوار نہیں ہو۔ اور ہاں ایک بات اور ، جس جس نے کتابیں منتخب کر لی ہیں وہ اس کو لینی پڑیں گی۔ یہ نہیں ہوگا کہ منتخب کرنے کے بعد کہو کہ ہم کو نہیں لینی۔اور دو دن سے کم دن کے لیئے کوئی کتاب نہیں ملے گی۔
دوست: نہیں نہیں ایسے کیوں کہیں گے ہم۔
تانیا: چلو شاباش پہلے تم آؤ۔ ہاں نام ، فون نمبر اور والد کا نام لکھو اور یہ لکھو کہ کتنے دن میں واپس کرو گے پڑھ کر۔
دوست نے اندراج کر دیا۔
تانیا: اچھا تو چار دن کے لیئے چاہیئے۔۔۔ تو اس کے بنے بیس روپے۔
دوست: کیا مطلب؟
راحیل کا منہ بھی حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔ یعنی اس کا اندازہ ٹھیک نکلا، تانیا نے اس کو پورا پلان نہیں بتایا تھا۔
دوست: مجھ کو نہیں چاہیے کوئی کتاب۔
تانیا: کیسے نہیں چاہیئے ، میں نے پہلے ہی کہ دیا تھا کہ کتاب منتخب کرنے کے بعد یہ کوئی نہیں کہے گا کہ ہم کو نہیں چاہیئے۔
دوست: یہ تو بے ایمانی ہے۔ آپ نے کب بتایا تھا کہ اس کا آپ کرایہ لیں گی۔
تانیا: تو تم نے پوچھا کب تھا۔ تمہارا خیال تھا کہ میں بے وقوف ہوں جو رات بھر بیٹھ کر ان پر کَوَر چڑھاتی رہی پھر صبح ماسی کے ساتھ ملکر صفائی کرائی۔
دوست : ابے یار راحیل یہ کیا ہے بھائی۔
راحیل: قسم سے مجھ کو بھی ابھی پتہ چلا ہے۔
راحیل :تانیا یار یہ نہ کرو یار۔۔ میرے دوست ہیں یہ۔
تانیا: تو میں کیا کر رہی ہوں، اسکول میں پڑھتے ہیں تو فیس دیتے ہیں ناں، تو میں کیا فضول میں کتابیں دوں گی پڑھنے کے لیئے ، مدر ٹریسہ ہوں کیا میں؟
راحیل: مگر یار یہ تو پُرانے ردّی والے رسالے ہیں۔
تانیا: ہاں تو نیا بھی تو کیا ہے میں نے ان کو ۔چلو سب کراؤ انٹری ورنہ ایک ایک کے گھر جا کر شکایت کروں گی۔
سب نے سڑے سڑے منہ کے ساتھ انٹری کرائی اور تانیا کے معین کردہ اصول کے مطابق دو دن سے کم نہیں لکھوائے۔تانیا نے جاتے ہوئے سب کو ایک ایک ٹافی دی اور کہا کہ یہ افتتاح کی خوشی میں ہے۔
تانیا: اور ہاں ایک بات اور۔۔۔
راحیل: اب کیا؟
تانیا: اگر کوئی بھی کتاب خراب ہوئی تو اس کا جرمانہ ہوگا۔
خراب؟ ایک دوست نے عجیب سی نظروں سے کتاب کو دیکھتے ہوئے کہا۔
دوست: آپ فکر نہ کریں، ہم اس کو لے جا کر بہت احتیاط سے رکھ دیں گے اور دو دن بعد واپس کردیں گے۔
تانیا: ہا ں ہاں مجھ کو پتا ہے پڑھنے کا کونسا شوق ہے تم لوگوں کو۔ ایسے ہی واپس کرو گے۔ میں ہی فضول میں اپنا وقت ضائع کرتی ہوں تم جیسوں پر۔ راحیل ان پڑھائی کے شوقین حضرات کو نیچے چھوڑ آؤ۔
راحیل: آتا ہوں ابھی چھوڑ کر۔۔ یہیں رہنا تم
تانیا: تمیز سے ، بڑی ہوں میں تم سے۔۔ اعزاز بھائی سے صرف ایک سال چھوٹی ہوں۔
تانیا نے گویا دبی دبی دھمکی دی۔
راحیل: یہ کیا تھا؟
تانیا: بزنس۔۔۔ تم کو نہیں پتا کتنا فائدہ ہے اس میں۔ بس میں نے سوچ لیا میں بڑے ہو کر بزنس وومن بنوں گی۔
راحیل: بڑے ہو کر؟ ۔۔ وہ تو تم ابھی سے بن چُکی ہو۔ اب دیکھنا میرے سارے دوست مجھ سے ناراض ہو جائیں گے۔ کوئی مجھ کو نہیں کھلائے گا اپنے ساتھ۔
تانیا: ارے وہ کیا نہیں کھِلایئں گے تم خود کھیلنے سے منع کر دینا۔
راحیل : اور وہ کیوں؟
تانیا: اس سے اہمیت بڑھتی ہے ، وہ تمہارے پیچھے پیچھے آئیں گے۔اور اگر نہ بھی آئے تو بھی کوئی بات نہیں ، اس بہانے تم کچھ دن گھر میں تو بیٹھو گے ناں، کچھ پڑھ ہی لو گے۔۔ ذرا دیہان نہیں ہے تمہارا پڑھائی پر۔
راحیل: واہ! عجیب ہو تم بھی۔
یہی چھوٹی چھوٹی باتیں اس گھر میں زندگی کے ہونے کا احساس دلائے رکھتی تھیں۔ کبھی تانیا اور راحیل بہت دوست ہوتے تو کبھی امّی کی عدالت میں اپنا مقدمہ لیئے کھڑے ہوتے۔ مگر یہ ناراضگی محض راحیل کی ایک جوبلی چاکلیٹ یا تانیا کی کسی نئی تخریب کاری تک ہی چلتی تھی ، جیسے ہی کوئی نیا کارنامہ دماغ میں آتا دونوں ساری ناراضگی بھلا کر ایک ہو جاتے۔
تانیا اور راحیل کی عمر میں پانچ سال کا فرق تھا مگر حرکتوں میں دونوں ہم عمر تھے۔
تانیا کہیں ضرب لگاتی تو راحیل بھی بدلہ لینے سے نہ چُوکتا۔ جیسے ایک بار راحیل پتنگ اُڑا رہا تھا تو تانیا چھت پر پہنچ گئی۔
تانیا: اچھا تو دماغ کو دھوپ لگائی جا رہی ہے ، تاکہ کچھ کام کر سکے ۔ اور امّی سمجھ رہی ہیں ان کا بیٹا قیلولہ فرما رہا ہے، مگر یہ صاحب تو سڑی گرمی اور دھوپ میں بلندیوں میں اُڑ رہے ہیں۔ بتاتی ہوں امّی کو جا کر کہ آپ کا بیٹا علامہ اقبال کے شعر کی تصویر بنا ہوا ہے۔" تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا"۔
راحیل: ارے یار اتنے دن بعد اُڑا رہا ہوں پتنگ، امّی کو نہ بتانا پلیز۔
تانیا: ٹھیک ہے ، ایک شرط پر نہیں بتاؤں گی، مجھ کو بھی اُڑانے دو۔
راحیل: نہیں نہیں، اتنی مشکل سے اوپر گئی ہے اور دیکھو کتنی پتنگیں ہیں اوپر، کوئی کاٹ نہ دے، تم سے نہیں سنبھلے گی۔
تانیا: ٹھیک ہے میں جا رہی ہوں امّی کو بتانے ، اب تم سنبھالتے رہنا اپنی پتنگ۔
راحیل: اچھا۔۔ رکو، بس دو منٹ کے لیئے لے لو۔ خیال رکھنا کٹ نہ جائے۔
تانیا: آتی ہے مجھ کو بھی اڑانی، اناڑی نہیں ہوں میں۔
یہ کہ کر تانیا نے بڑے انداز سے پتنگ کی ڈور سنبھالی اور ڈھیل دینی شروع کی۔
راحیل: ڈھیل نہ دو تم سے سنبھلےگی نہیں۔کٹ نہ جائے یار مجھ کو دے دو۔
تانیا : ارے نہیں کٹے گی، اسی طرح تو اوپر جاتی ہے، پہلے ڈھیل دو پھر کھینچو، پھر ڈھیل دو اور پھر کھینچو۔۔۔
اور کھینچو کہتے ہی پتنگ کٹ گئی۔۔۔
تانیا: ارے یہ کیا، یہ کیسے کٹ گئی؟ کچی ڈور تھی تمہاری۔۔
یہ کہتے ہی تانیا نیچے کی طرف بھاگی- اُس کو پتا تھا کہ راحیل اسکو چھوڑے گا نہیں۔ اس نقصان کا بدلہ راحیل نے کچھ دن بعد تانیا کے کمرے میں اپنا چوزہ چھوڑ کر لیا۔ تانیا اپنے کمرے میں پڑھ رہی تھی اور راحیل نے اپنا چوزہ اسکے کمرے میں چھوڑ کر کمرہ بند کر دیا۔ اب چوزہ تانیا سے ڈر کر یہاں وہاں بھاگ رہا تھا اور تانیا چوزے سے ڈر کر چیخیں مار رہی تھی۔ پھر امّی نے آکر دروازہ کھلوایا -
امّی: کھولو بھئی دروازہ ، اسکا دل بند ہو جائے گا ڈر سے۔ مت تنگ کیا کرو اسطرح ابھی سب ساتھ ہو ، بڑے ہو جاؤ گے تو کوئی کہیں اور کوئی کہیں، پھر یاد کرو گے کہ کاش ایک دوسرے کو تنگ نہ کیا ہوتا۔
اب سارے بہن بھائی بڑے ہوگئے ہیں ، سب اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہیں۔ کوئی کہیں تو کوئی کہیں۔مگر ایک بات ہے کہ ان کے پاس اپنی زندگی میں رنگ بھرنے کے لیئے بہت خوبصورت یادیں ہیں۔ جب کبھی یہ سب ملتے ہیں تو گزرے لمحوں کو یاد کر کے پھر سے اُن کو جیتے ہیں۔ وہ تمام چھوٹی چھوٹی شرارتیں اور ان سے جُڑی باتیں ان کے تھکے تھکے وجود کو جیسے توانا کر دیتی ہیں۔
سچ کہتے ہیں کہ بچوں کو ان کا بچپن کُھل کر جینے دینا چاہیئے، حد سے زیادہ روک ٹوک ، بات بے بات ڈانٹ ڈپٹ ان کے بچپن کے وہ تمام رنگ چھین لیتی ہے جس سے کہ وہ اپنی پوری حیات کو حسین اور رنگدار بنا سکتے تھے۔ جن کے پاس یاد کرنے کے لیئے حسین باتیں نہیں ہوتیں وہ زندگی سے جلدی ہی بیزار ہو جاتے ہیں۔ اُن کی اپنی زندگی بے رنگ اور پھیکی سی رہ جاتی ہے۔
آج تانیا ، راحیل اور باقی بہن بھائی جوانی میں بھی اپنے بچپن کا لطف لیتے ہیں اور ہر گزرتے لمحے کو کُھل کر جیتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
Comments