top of page

حاصلِ زیست

  • Writer: Baithak | بیٹھک
    Baithak | بیٹھک
  • Jul 29, 2021
  • 13 min read

تحریر: سبین محبوب / سبزواری




ree

ٹی-وی کے آگے بیٹھی وہ اپنا ہی انٹرویو کچھ غائب دماغی کے عالم میں دیکھ رہی تھی۔ ایک ہاتھ میں چائے کا مگ اور دوسرے ہاتھ میں ریموٹ تھامے وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے ارد گرد سے بے نیاز نظر آرہی تھی۔

"جی تو خواتین و حضرات آج ہم جس شخصیت سے آپ کی ملاقات کروارہے ہیں اُن کے بارے میں جاننے کے لیئے آپ سب کتنے بے چین ہیں اس کا اندازہ ہم کو آپکی طرف سے ملنے والے پیغامات سے ہو گیا تھا ۔ جتنا اشتیاق آپ سب کو تھا ان سے ملنے کا اتنا ہی شوق ہم رکھتے ہیں ان کے بارے میں جاننے کا۔ اب ہم آپ کو مزید انتظار نہیں کروائیں گے تو چلیں دعوت دیتے ہیں ہم سب کی دل پسند شخصیت جنہوں نے ناجانے کتنے لوگوں کی سوچ کو اور زندگیوں کو اپنے محو کر دینے والے لیکچرز اور باتوں سے بدل ڈالا تو تشریف لاتی ہیں "میرب سیّد صاحبہ"۔۔۔۔ تالیوں کے شور میں چہرے پر شکرگزاری کی دھنک سجائے سٹیج کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ ہر ہر سیڑھی پر اپنے رب کی جتنی شکرگزار ہو رہی تھی یہ وہ ہی جانتی تھی۔ اُس کا رُواں رُواں اُسے اِس بات کا یقین دلا رہا تھا کہ وہ واقعی اپنے آپ سے جیتنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ جو کہ انتہائی مشکل امر تھا۔


نشست پر بیٹھتے ہی انٹرویو لینے والی خاتون نے رسمی جملوں کے بعد اُس کی شخصیت کو ٹٹولنا شروع کیا، " جی میرب صاحبہ سب سے پہلے تو ہم سب ہی اس بات کو جاننا چاہیں گے کہ اپنی باتوں میں اتنا اثر کیسے پیدا کرتی ہیں آپ؟ ہم نے بہت سے موٹیویشنل سپیکرز کو سنا ہے مگر بہت کم ہی ایسے پائے ہیں جو کہ واقعی لوگوں کی زندگیوں کو بدل سکیں ہوں، آپ کی باتیں سن کر ایسا لگتا ہے کہ کسی جیسے ہم کسی سحر میں جکڑ گئے ہوں اور اس سے اُسی صورت میں نکل سکتے ہیں کہ جب خود میں مطلوبہ تبدیلی لے کر آئیں، یہ کیسے کر لیتی ہیں آپ؟

"ارے آپ نے تو کچھ زیادہ ہی قلابے مِلا دیئے ہیں، ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے، آج کل کے دور میں جس طرح کے چیلنجز کا ہم سب کو سامنا ہے تو ایسے میں جس کسی کی بھی بات دل کے قریب محسوس ہو وہ اثر کرتی ہے" میرب نے انکساری سے کام لیتے ہوئے کہا۔


" اچھا یہ بتائیں کہ یہ خیال کیسے آیا کہ سوشل پلیٹ فارم کا سہارا لیتے ہوئے ایسے لوگوں کی مدد کی جائے جو کسی بھی قسم کی ذہنی پریشانی میں گھرے ہوئے ہیں ، یا یوں کہا جائے کہ جو اپنی ذات کی نفی کر بیٹھے ہیں جب کہ ہماری تحقیق کے مطابق آپ کا تعلق نہ تو نفسیات سے ہے نہ مائنڈ سائنسِس سے" اینکر نے گویا اُس کے ماضی کے بند دروازوں کو کھول دیا۔

"ہمم ۔۔۔ میرا یہ ماننا ہے کہ اس کام کے لیئے ضروری نہیں ہے کہ نفسیات کی ڈگری لی جائے، اپنی نفسیات کو سمجھ لینا ہی بہت ہے، میں انسان کو پیش آنے والے مسائل کے بارے میں بات کرتی ہوں نہ کہ ان کی نفسیاتی بیماریوں یا الجھنوں کے بارے میں۔انسان محبت کی فطرت پر پیدا ہوا ہے، یعنی سب کی بنیادی چاہ یہ ہے کہ اس کو چاہا جائے ، پسند کیا جائے، اس کو تھوڑا اور واضع کریں تو یوں کہیں گے کہ اس کی عزت بھی کی جائے اور اس کی نفی نہ کی جائے، یہ ایک بنیادی فارمولہ ہے جو ہر انسان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیئے لاگو ہوتا ہے، بس یہی فارمولہ لگاتے جائیں اور مسئلے کا حل نکالتے جائیں، رہی بات ہی کہ اسکا خیال مجھے کیسے آیا تو اس سلسلے میں میں یہ کہوں گی کہ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کے چہروں کو پڑھ کر، ہر شخص کا چہرہ اس بات کو عیاں کر رہا ہوتا ہے کہ وہ کس محاز پر لڑ رہا ہے۔ " میرب نے متانت سے کہا۔جیسے وہ ماضی کے ان دریچوں کو کھولنا نہیں چاہ رہی جنہیں اس نے اپنی پوری طاقت لگا کر بند کیا تھا۔


" اچھا ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ یہ سفر شروع کیسے ہوا، ہم کو یاد ہے آپ کا پہلا آڈیو کلپ جو آپ نے کسی فیس بک گروپ پر اپلوڈ کیا تھا جو شاید پانچ سے سات منٹ کا تھا مگر اس میں خود آگہی کا جو پیغام تھا اس نے بہت سوں کو جھنجوڑ دیا تھا، کچھ اس کے بارے میں بتایئے" اینکر پرسن نے محظوظ ہوتے ہوئے پوچھا ۔۔۔


ٹی –وی کی آواز پس منظر میں چلی گئی اور ماضی کا کوئی درکُھلتا چلا گیا۔

"میرب ، میرا رومال ابھی تک دھویا یا نہیں ؟ فوراً استری کر کے لا کر دو ، دیر ہو رہی ہے مجھے آفس کے لیئے"، اپنے والد کی آواز سن کر تو اس کا دل اتنی تیزی سے دھڑکتا تھا کہ جیسے ابھی اچھل کر باہر ہی آ جائے گا-

" جی ابّو لاتی ہوں" ، وہ تیز تیز رومال کو رگڑتے ہوئے بولی، جسے وہ یکسر بھول ہی گئی تھی کیونکہ چھوٹے بھائیوں کےاور اپنے پی-ٹی شوز پالش کرنے تھے اور وہ کرتے ہی وہ سکول کے لیئے تیار ہوئی تو ابّو کی آواز آ گئی وہ ناشتہ بھول کر رومال دھونے لگی، جلدی جلدی استری کرکے ابّو کو دیا ، اتنے میں سکول جانے کا وقت ہو گیا تو وہ جلدی سے بیگ اٹھا کر بھاگی ۔۔۔ تیز تیز چلتے قدموں کا ساتھ دینے کے لیئے آنکھوں سے تیز رفتار آنسوں بہنا شروع ہو گئے اور وہ دل ہی دل میں روتی ہوئی سکول کی طرف راوں دواں تھی، کیا تھا جو ابّو باجی سے کہ دیتے رومال دھونے کے لیئے، وہ تو ناشتہ کر کے تیار ہو گئی تھیں ، میں ہی ایسے کاموں کے لیئے یاد آتی ہوں۔ سکول کا گیٹ آگیا تھا، شکر ہے وہ اسمبلی شروع ہونے سے پہلے پہنچ گئی تھی ۔

رومال کے دھونے کا کہنا مسئلہ نہیں تھا ، مسئلہ تھا اس کی شخصیت کو محض ایسے ہی کاموں کے لیئے یاد رکھنا جن کے لیئے اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اور اس کا بچپن تیار نہ تھے۔ ساتھ ہی بڑی بہن اور اس کے درمیان فرق کرنا۔۔ وہ ابّو کے سارے کام جو وہ اس سے کہہ کر گئے ہوتے تھے ان کے آنے سے پہلے کر دیا کرتی تھی مگر اس کے باوجود بھی وہ ان کی نظر میں وہ اہمیت نہیں پا سکی تھی جو اُس کے خیال میں اُسکی بڑی بہن کو حاصل تھی۔میرب کی امّی اسکی اس احساسِ محرومی سے واقف تھیں اسی لیئے وہ اس کی دل جوئی کرتی رہتی تھیں مگر شوہر کی نظر میں اس کو کوئی اہمیت نہیں دلا سکی تھیں۔ شاید اس لیئے کہ وہ خود بھی کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں تھیں-

ایسے ڈھیروں واقعات سے اس کا بچپن بھرا پڑا تھا جو اس کو ہمیشہ اس بات کا احساس دلاتے تھے کہ اس کا رنگ باقی بہن بھائیوں سے کم ہے ، وہ بہت دبلی ہے، وہ قد میں چھوٹی ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی شکل اسکے ننھیال سے ملتی ہے ۔۔۔ وقت گزرتا گیا اور وہ اس احساسِ کمتری کے ساتھ بڑی ہوتی گئی۔ ہر جگہ مقابلہ بازی ہر جگہ اس کی ذات کی نفی اس کو اسی کے خول میں بند کرتی چلی گئی۔۔۔۔ کالج میں داخلہ لینے کے بعد اس کے لیئے سب سے بڑا مرحلہ سہیلیاں بنانے کا تھا ، اس کو ہر کوئی اپنے سے بہتر نظر آتا تھا، اس نے الگ تھلگ رہنا شروع کر دیا۔۔ ایک دن اس کی ایک ٹیچر نے اسکے بنائے ہوئے جرنل کی بہت تعریف کی اور اس کو کلاس میں سب کے سامنے بلا کر اس کے لیئے تالیاں بجوائیں ، وہ دن اس کی زندگی کا سب سے حسین دن تھا، گھر آ کر اس نےاپنی امّی کواس بارے میں بتایا جنہوں نے اس سے کہا کہ میں تو پہلے ہی جانتی تھی کہ تم بہت ٹیلنٹد ہو، اس کا دل یک دم سرشار ہوگیا۔۔ اس دن کے بعد سے اس کو لگا کہ اگر وہ اپنی پڑھائی دل جمعئ سے کرے تو بہت توجّہ حاصل کر سکتی ہے۔ اس نے خوب محنت کرنا شروع کر دی ، کلاس میں اچھی کارکردگی ہونے کی وجہ سے اس کو ہم جماعت لڑکیوں کی توجہ بھی حاصل ہو گئی۔

وہ اسی میں خوش تھی کہ وہ جانی جاتی ہے ، کیونکہ اُس وقت تو اِس کی ضرورت یہی تھی کہ وہ جانی جائےاور کسی کو اس کے ہونے کا احساس ہو۔۔۔ مگر اس کے بھولپن کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ضروری نہیں کہ کوئی آپ کوسرہا رہا ہے تو وہ واقعئی آپ سے مرعوب بھی ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا کوئی کام آپ سے نکلوانا چاہتا ہو۔۔۔ ایسا ہی اس کے ساتھ ہوا، امتحان کے قریب اسکی ہم جماعت لڑکیوں نے اس کے نوٹس اور جرنل سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور امتحان ہوتے ہی ایسی ہو گئیں جیسے اسے جانتی ہی نہیں۔۔۔ وہ اندر سے پھر ٹوٹ گئی۔۔۔ اس کو پھر چُپ سی لگ گئی۔۔۔دن گزرتے گئے اور اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا- وہ ہر بار اپنے آپ کو ایک موقع دیتی کہ شاید اب کہ کوئی میری صلاحیتوں کو سراہے، تعریف کرے اور اتفاق سے ہر بار جیسے ہی وہ اُٹھ کر کھڑی ہونے لگتی اسے گرا دیا جاتا۔

اپنی جماعت میں دوسری پوزیشن لینے پر اس کو اسکے ایک ٹیچر نے کمیٹی کا ممبر بنا دیا اور ڈیپارٹمنٹ میں ہونے والے سیمینار اور دیگر تعلیمی سرگرمیوں کے لیئے اس کی مدد لی جانے لگی۔ یہاں سے اسکی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔ اسکی بہن کی شادی ہو چکی تھی اور اب خاندان اور گھر میں کوئی اسکا مقابلہ اسکی بہن سے نہیں کرتا تھا۔ اب وہ پڑھائی اور دیگر سرگرمیوں میں اتنی مصروف ہوگئی تھی کہ اس کا شاز ہی کسی محفل میں جانا ہوتا۔۔شاید اسی لیئے وہ ان تمام باتوں سے بچی ہوئی تھی جو اسکا دل بجھا دیتی تھیں۔اب اس میں ایک واضع تبدیلی آ چکی تھی، وہ باتیں کرنے سے کتراتی نہیں تھی، وہ کوشش کر کے ہر طرح کی خبروں سے اپنے آپ کو باخبر رکھتی تھی تاکہ اس کے پاس معلومات کا خزانہ ہو اور کوئی اس کو کم تر نہ سمجھے۔۔

وقت کا پہیہ چلتا گیا اس کے والد کا انتقال ہوگیا اور اسکے کچھ ہی مہینوں بعد اس کی شادی ہو گئی۔ یعنی زندگی کی کتاب کا نیا باب شروع ہوگیا۔۔ یہ ایک عجیب ہی شروعات تھی، ہمارے معاشرے کا یہ عجیب ہی المیہ ہے کہ جس لڑکی میں شادی سے پہلے بہت خوبیاں نظر آ رہی ہوتی ہیں ، شادی ہوتے ہی وہ ہر طرح سے نا اہل قرار دے دی جاتی ہے۔اس کو شروع دن سے ہی اس بات کا احساس دلایا گیا کہ وہ اہم نہیں ہے،اسکے ہر کام میں کیٹے نکالے جانے لگے - اسکی ساس اکثر اسکا مقابلہ اپنے آپ سے کیا کرتیں ایک دن انہوں نے اس سے کہا " تمہارے والد کا رنگ شاید صاف ہوگا تم تو بالکل اپنی امّی پر گئی ہو-" حالانکہ وہ خود خاصے پکے رنگ کی مالک تھیں، بس یونہی اس کو کم تر ہونے کا احساس دلانا مقصود تھا ان کا۔ ایسی ہی بہت سی تیز وہ چبھنے والی باتوں سے اس کے کان اکثر چھلنی ہوتے۔

شادی کو کئی سال گزر گئے، اس کے شوہر کا تبادلہ ہوگیا اور یہ دوسرے شہر میں آگئی، نیا شہر ، نئے لوگ ، سب کی اپنی اپنی کہانیاں اور تجربے۔۔۔ اس نے زندگی کو نئے رُخ سے دیکھنا شروع کیا، ماحول کی تبدیلی نے اس پر مثبت اثر ڈالا۔ اس کے ملنے والوں میں اس کی باتوں کو اور سوچ کو سراہا جانے لگا اور اسکی وجہ یہ تھی کہ اس نے کبھی کسی کو اس کی شکل اور مالی حیثیت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اہمیت نہیں دی، اس نے سب کو ایک ہی طرح کی عزّت اور اہمیت دی۔ اس نے اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا کہ کبھی کسی کی ذات کو موضوعِ گفتگو نہ بنایا جائے۔ اس کی جو بات سب میں پسند کی جاتی تھی وہ اس کا لوگوں کی چھوٹی سے چھوٹی خوبی کو سراہانا تھا۔

چونکہ وہ خود اس کرب سے گزر چکی تھی کہ لوگ اسکی ذات کی نفی کرتے تھے اس لیئے اس کی تکلیف کیا ہوتی ہے وہ بخوبی جانتی تھی۔ اس نے اپنے سرکل کی عورتوں کو اس احساس سے روشناس کرایا کہ اس دنیا میں اگر آپ کو کوئی عزت نہیں دیتا تو اس بات سے دکھی نہ ہوں، کیونکہ وہ آپ کو وہی دے گا جو اس کے پاس ہے اگر کوئی آپ کو برا کہتا ہے اور آپ برے نہیں ہیں تو یہ جان لیں کہ یہ اُس کی بیمار سوچ ہے جس کو آپ کی اچھائی نظر نہیں آتی۔ کسی کے طعنے تشنے سے اپنی روح کو چھلنی نہ کریں بلکہ خود کو یہ بات باور کرائیں کہ آپ میں یقیناً کوئی خوبی ہے جو ان حاسدوں کو چین نہیں لینے دے رہی۔ ہاں اس کے لیئے آپ کا سچا، بے لوث اور مخلص ہونا شرط ہے۔

اس محاذ پر لڑنے کے لیئے اس نے بہت عرصےتک خود سے جنگ کی خود کو بار بار یہ باور کرایا کہ کسی کے کچھ بھی سمجھنے سے اور کہنے سے اس کی ذات کو کوئی فرق نہیں پڑتا وہ ایک مضبوط اور با صلاحیت عورت ہے ، بعض دفعہ والدین کے رویّے ، جانے انجانے میں کہی گئی رشتے داروں اور دوستوں کی باتیں کسی کی روح کو کتنا چھلنی کردیتی ہیں اگر اس بات کا اندازہ اُن کو ہو جائے تو شاید وہ بولنے سے پہلے سوچ لیا کریں۔

ایک دن اسی طرح کسی کی دعوت میں عورتوں کا موضوعِ گفتگو عورت کی عزت اور مقام تھا، جس میں اپنی رائے دیتے ہوئے اس نے کہا کہ آپ کو اس وقت نیچا دکھایا جاتا ہے جب آپ خود کو نیچا سمجھتے ہیں، کوئی بھی آپ کی بے عزّتی اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک آپ خود اپنی عزّت کرتے ہیں۔ اگر آپ کی نظر میں اپنی عزت ہے تو آپ کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیئے کہ کوئی آپ کو کیا کہ رہا ہے۔ (بچپن میں سنا کرتے تھے ناں کہ جو کہتا ہے وہی ہوتا ہے، کسی کے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا تو یہ بالکل ٹھیک کہا جاتا تھا )۔اللہ بعض بندوں میں اپنا قرب پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کو اس کے ارد گرد لوگوں کے ذریعے آزماتا ہے، ان روّیوں کے ذریعے اس کے دل کو کندن بناتا ہے تاکہ اسکا بندہ اس تک خوب خالص ہو کر رجوع کرے۔۔۔ ایسا ہی اس کے ساتھ ہوا تھا، جب جب وہ ارد گرد کے لوگوں کی نظر میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیئے کوشش کرتی اس کو ہر بار ناکامی ہوتی اور جب اس کو یہ بات سمجھ آئی کہ اب وہ صرف اس بات کو اہمیت دے گی کہ اس کے اللہ کو کیا پسند ہے اور وہ کس بات سے راضی ہوتا ہے تو اس کو لوگوں میں بھی مقبولیت ملتی چلی گئی۔ جب کبھی وہ ایسے لوگوں سے ملتی جو اپنے بچوں میں فرق کرتے تھے تو وہ ماضی کے پاتال میں گر جاتی اور ایک دم سے اس کے دل میں یہ خیال آتا کہ وہ ایک اور "میرب " کے بچپن کو تکلف دہ نہیں بننے دے گی۔

ہمارے یہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر کسی کو غلط کام کرتا دیکھتے ہیں تو محض اس لیئے اس کو نہیں ٹوکتے کہ کہیں اس سے تعلقات خراب نہ ہو جائیں، اِس نے اس کے بالکل برعکس کرنا شروع کردیا، جب کبھی کہیں زیادتی دیکھتی تو اس کے متعلق اس انداز سے بات کرتی کہ سامنے والا اس کی بات سے متفق ہو جاتا۔


ایک بار فیس بک کے ایک گروپ میں ایک خاتون نے لکھا کہ " میں جتنا بھی کسی کے ساتھ اچھا کر لیں ان کے ساتھ لوگ برا ہی کرتے ہیں، بھلائی کا زمانہ ہی نہیں ہے، کسی کے ساتھ بھلا کرنا ہی نہیں چاہیئے " ان کی پوسٹ کے حق میں بے شمار کمنٹس تھے، اس نے اس کے جواب میں ایک آڈیو کلپ ریکارڈ کیا جو کہ بہت مختصر مگر جامع تھا، اس میں اس نے ہر ایک کو مخاطب کیا صرف عورت یا صرف مرد کی بات نہیں کی اس نے سب کو مخاطب کر کے کہا کہ:" اگر آپ لوگوں کی نظر میں عزت، محبت اور مقبولیت پانا چاہتے ہیں تو آج سے ایک کام کریں، روز رات کو سونے سے پہلے ایک ڈائری میں تاریخ ڈال کر صفحے پر دہ کالم بنائیں ایک کالم میں صرف یہ لکھیں کہ آج میں نے فلاں فلاں کام اللہ کی رضا کے لیئے کیا، اور دوسرے کالم میں وہ کام لکھیں جن میں آپ نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی۔ یہ عزم کر کے سوئیں کہ کل کا دن اللہ کی رضا کے لیئے گزاروں گا/گی۔ ایسا آپ جب تک کریں جب تک اللہ کی نا فرمانی والے کام اللہ کی رضا والے کام سے کم نہ ہو جائیں ، جس دن ایسا ہونا شروع ہوگا اسی دن سے آپ دیکھیں گے کہ لوگ آپ کے گرویدہ ہونا شروع ہو جائیں گے۔ مال و دولت، شکل و صورت تو بہلاوہ ہوتی ہیں جو ہم خود کو دیتے ہیں کہ فلاں امیر ہے ناں اس لیئے اس کی عزت ہے ، فلاں حسین ہے ناں اس لیئے اس کی پوچھ ہے اگر ایسا ہوتا تو حضرت بلال کے قدموں کی چاپ ہمارے نبیﷺ کو جنت میں نہ سنائی دیتی ۔ یہ سب تو مٹی ہو جائے گا ، جو ساتھ جائے گا وہ آپ کا اپنے رب کی رضا کے لیئے کیا ہو ا اعمال نامہ ہوگا۔ بولنے دیں جو کچھ بول رہا ہے، سمجھنے دیں جو کچھ بھی سمجھ رہا ہے، یہ رویئے آپ کو آپ کے مقصدِ حیات سے بہکانے کے لیئے آپ کی زندگی میں آتے ہیں تاکہ آپ کا مرکز آپ کی اپنی ذات بن جائے نہ کہ رضا ءِ الٰہی۔ آپ بس لگے رہیں اللہ کو راضی کرنے میں کیونکہ یہ ہی کامیابی کی راہ ہے ۔"

اس نے یہ کلپ اتنے پر جوش طریقے سے ریکارڈ کیا تھا کہ اس کے خود کے رونگھٹے بھی کھڑے ہو گئے تھے۔ اس کو لگا کہ جیسے اس نے بہت سوں کو نہیں تو کم از کم کچھ لوگوں کے دلوں کو تو جھنجھوڑا ہی ہے۔ اس کی کلپ پر کچھ لوگوں نے اچھے اور مثبت کمنٹس دیئے تو کچھ نے کہا کہ یہ کہنا آسان ہے کرنا نہیں، اب کیا بے وقعتی برداشت کیئے جائیں ہم تو ترکی بہ ترکی جواب دینے کے قائل ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔ وہ اس طرح کے ردِّعمل کے لیئے تیار تھی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ انسان کی فطرت ہے کہ جب اس کو کوئی اپنا طرزِ عمل بدلنے کو کہے تو وہ پہلے اس کے حق میں دلائل دیتا ہے اور پھر سامنے والے کو غلط ثابت کرتا ہے ، لیکن اگر سچی لگن سے اپنا پیغام پہنچاتے رہا جائے تو ایک نہج پر آکر اس کی محنت رنگ لے آتی ہے اور لوگ اس کی سو چ کے قائل ہوتے جاتے ہیں، کیونکہ بات اگر فطر ت کی بنیاد پر کی جائے تو کبھی نہ کبھی تو اثر کرتی ہی ہے۔


میرب کی زندگی کو ایک نیا مقصد مل گیا تھا، اس نے اپنی زندگی کے دشوار گزار راستوں کو جسطرح طے کیا تھا اس کا حاصل لوگوں تک پہچانا شروع کردیا تھا، اس نے والدین کے لیئے خاص طور سے ایک دن مختص کیا اور اس دن وہ ان کے مسائل سنتی اور ان کو بتاتی کہ بچوں کو کوئی بات سمجھانے کے لیئے آپ پہلے خود کو اُسی عمر کا بچہ تصور کریں جس عمر کا آپ کا بچہ ہے، اب آپ سمجھ سکیں گے کہ آپ کا بچہ آپ سے کس قسم کے لہجے کی توقع کر رہا ہے، یا اس کو ڈانٹنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ آپ اس کی جگہ ہوتے تو یہ ڈانٹ آپ کو کیسی محسوس ہوتی ،آپ کے اندر کتنی ٹوٹ پھوٹ ہوتی- آپ کی طرف سے کی جانے والی یہ ٹوٹ پھوٹ بچے کی شخصیت پر ساری عمر کے لیئے دراڑ ڈال دیتی ہے، وہ چاہ کر بھی اس دراڑ کو بھر نہیں پاتا ، لہذہ ایسا کرنے سے پہلے یہ سوچیں کہ یہ وہی بچہ ہے جس کے لیئے آپ ساری زندگی محنت کرتے ہیں کہ اس کا مستقبل سنور جائے مگر آپ انجانے میں اس کا حال اور اس کا ماضی جس کو وہ ساری عمر اپنے ساتھ لے کر چلے گا کانٹوں سے بھر رہے ہیں۔


تالیوں کے شور کی آواز سے وہ سوچوں کے بھنور سے نکل آئی، اس کی نظر ٹی- وی پر پڑی جہاں انٹرویو کرنے والی اس کے ہاتھ میں پھولوں کا گلدستہ تھما رہی تھی۔اور ساتھ ہی یہ کہ رہی تھی کہ ہم شکرگزار ہیں آپ جیسی ہستیوں کے جو اپنے ساتھ جینے والوں کی زندگیوں کو حسین بنانے کی تگ و دو میں لگے ہوتے ہیں اور ان کی بے لوث ہو کر مدد کرتے ہیں۔


اچانک اس کو محسوس ہو ا کہ اس کے گال اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں سے تر ہو چکے ہیں۔ مگر یہ کسی غم یا تکلیف کے نہیں بلکہ خوشی اور اطمینان کے آنسو تھے جو اس کا حاصلِ زیست تھے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Comments


Subscribe Form

©2020 by Baithak. Proudly created with Wix.com

bottom of page