زندگی تو گزر ہی جاتی ہے۔۔۔
- Baithak | بیٹھک
- Jan 30, 2021
- 10 min read
از قلم: سبین محبوب / سبزواری

آج بھی وہ اللہ سے دل کا حال کہنے کے ارادے سے بیٹھی آسمان کو تکے جا رہی تھی۔۔۔ اُس کو چاند ہمیشہ سے اپنا ساتھی لگتا تھا، خوشی کے لمحوں میں اُس کے ساتھ مسکراتا ہوا اور اُداس لمحوں میں اُس کا غم بانٹتا ہوا ۔۔۔ کبھی کبھی کوئی چھوٹی سی بات اُس کو ماضی کی تلخ باتوں کے پاتال میں دھکیل دیتی تھی اور وہ آسمان کو تکتے ہوئے دل ہی دل میں اپنے آپ سے مکالمے کرتے کرتے کب اللہ کو اپنا حال بتانے لگ جاتی اُس کو پتا بھی نہیں چلتا۔۔۔ کتنی ہی دیر تک وہ اُس کیفیت میں رہتی اپنے گالوں کو آنسوؤں سے بھگوتی رہتی اور جب دل ہلکا ہو جاتا تو خاموشی سے دل ہی دل میں یہ کہتی ہوئی اُٹھ جاتی کہ : "اللہ میں ناشکری نہیں کر رہی بس اپنا دل تیرے آگے ہلکا کر رہی ہوں، تُو تو سب جانتا ہے ۔"
بستر پر لیٹ کر وہ یہ سوچتی کہ کیوں لوگ کسی زندگی کے پَنّوں پر سیاہی گِرا دیتے ہیں؟ کیوں اُن صفحوں کو بدنما کر دیتے ہیں کہ جب کبھی وہ زندگی کے پَنّے پلٹیں تو وہ بدنما صفحہ اُن کو اُسی کیفیت میں دھکیل دے جس سے وہ بمشکل نکل پائے تھے۔ یہ سب سوچتے سوچتے اُس کی کب آنکھ لگ جاتی اُس کو پتا بھی نہ چلتا۔۔۔ اگلی صبح وہ بوجھل سے دل کے ساتھ اُٹھتی جیسے کوئی سپاہی میدانِ جنگ سے ہار کر لوٹا ہو، اُس کا رُوواں رُوواں دُکھی ہوتا ہے۔۔۔۔ اُس کی بوجھل آنکھوں کو دیکھ کر اُس کے شوہر کو فوراً پتا چل جاتا تھا کہ وہ پھر تلخ یادوں کو جی کر اُٹھی ہے۔۔۔ وہ کچھ نہ پوچھتا نہ ہی کچھ کہتا بس خاموشی سے نظروں ہی نظروں میں اُس کو جانچتا رہتا۔۔۔۔ وہ جانتا تھا بہت سی تلخ باتوں میں اُس نے بھی اپنا حصّہ ڈالا تھا، مگر وہ پشیمان تھا، اور اس بات کا اظہار وہ اُس سے کر چکا تھا۔۔۔ وہ بھی اُس کو معاف کرچکی تھی ، وہ اَب اپنے شوہر سے نالاں نہیں تھی کیونکہ شاید وہ خُود کو بدلنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔۔۔یا کم از کم اُس کو ایسا لگتا تھا۔۔۔
زندگی میں بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو انسان چاہتے ہوئے بھی نہیں بھول پاتا۔۔۔ ایسا ہی اس کے ساتھ ہو ا تھا۔ نِدا ایک پڑھے لکھے اعلٰی متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، اُس کی ماں نے اپنے سارے بچوں کی بہت اچھی تربیت کی تھی ، وہ خود بہت نرم دل خاتون تھیں ، شاید ہی انہوں نے کسی کا دل دُکھایا ہو اور اپنی یہی صفت اُنہوں نے اپنے بچوں کے خمیر میں گوندھ دی تھی۔۔۔ ندا سمیت سارے بچے بس سب کی خدمت اور عزت کرنا جانتے تھے۔ تیزی و طرّاری سے اُن کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ گھر میں نوکر چاکر کے ہوتے ہوئے بھی ابھی اُن کے دل میں غرور نہیں آیا۔۔۔ کبھی محنت کرنے سے نہیں کترائے۔۔ اُن کی یہی سوچ تھی کہ ہم جب لوگوں کے ساتھ اچھے اور سچّے ہیں تو لوگ بھی ہمارے ساتھ ایسے ہی ہونگے۔ اُنہوں نے لوگوں کا یہ رنگ دیکھا ہی نہیں تھا کہ اکثر لوگوں کے دل میں یہ بات سمائی ہوتی ہے کہ بس وہ ٹھیک ہیں ، جیسا وہ کہ رہے ہیں اور کر رہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔ ندا اکژ یہ سوچا کرتی تھی کہ اگر لوگ یہ بات سمجھ لیں کی اُن کا کہا ہوا ایک ایک لفظ کسی کی زندگی کی یادوں کو حسین یا تلخ بنا سکتا ہے تو سب کی زندگی پُر سکوں ہو سکتی ہے۔ اُس کی امّی کا کہنا یہ ہی ہوتا تھا کہ ایسا تو بس جنّت میں ہی ہوگا کہ کوئی کسی کا دل نہیں دُکھائے گا یہ دنیا تو صبر اور شکر کا مظاہرہ کرنے کا میدان ہے۔
آج پڑوسن کے گھر چائے کی دعوت تھی ، محلّے کی چند خواتین تھیں جو گپ شپ کے ارادے سے جمع ہوئیں تھیں۔ ہلکی پھُلکی باتوں کے بعد بات شادی کے موضوع پر گئی سب اپنی اپنی شادی کا بتانے لگیں کی کتنے یادگار دن تھے، ایک نے بڑے فخر سے بتایا کہ اس کی ساس نے تو کہ دیا کہ شادی اور ولیمے کا جوڑا تو بس دُلہن کی مرضی سے آئے گا بس جو اُس کو پسند ہو لے لے۔ ایک اور نے لقمہ دیا میری تو ساس اور نند ساتھ گئیں تھیں ، بیچاری بہت گھومیں میرے ساتھ کیونکہ مجھ کو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا۔۔۔ اسی دوران ندا سے عذرا آپا نے پوچھا اراے تم کیوں خاموش بیٹھی ہو ؟ تمہا را جوڑا کیسا تھا ؟ تم نے تو خود ہی پسند کیا ہوگا ، بہت الگ پسند ہے تمہاری ، اور وہ بس مسکرا کر ہی رہ گئی، اب وہ کیا بتاتی کہ اس کی ساس اور نند آرڈر بھی دے آئیں تھیں جوڑے کا اور اس کو محض خانہ پُر ی کے خیال سے لے گئی تھیں ایک دکان میں جس کی تعریف کے قلابے انہوں نے آسمان سے ملا دیئے تھے، ندا کو وہاں موجود ایک بھی جوڑا پسند نہیں آرہا تھا، عجیب چیختے چلّاتے رنگ موٹا موٹا چمکدار کام ، وہ یہ سوچ رہی تھی کہ جب اُس کی ساس پوچھیں گی کہ ان میں سے کونسا پسند آیا تو وہ صاف کہ دے گی کہ اُس کو یہاں کوئی اچھا نہیں لگ رہا، چلیں طارق روڈ کی اُسی دکان میں چلتے ہیں جہاں آپ نے میری امّی کی طرف سے اپنے لیئے ساڑھی لی ہے مگر یہ کیا ، ساس نے پوچھا تو کچھ نہیں بس یہ بتایا کہ کل ہم نے یہاں آکر تمہارے دونوں جوڑوں کو آرڈر د ے دیا ہے۔ وہ بس ایک گھونٹ لے کر رہ گئی، گھر آکر وہ بجھی بجھی سی تھی، امّی کے پوچھنے پر اتنا کہا کہ "مجھ کو اس دکان کا کچھ بھی اچھا نہیں لگا ، اور میرے جوڑے مجھ سے پسند کروائے بغیر ہی لے لیئے، مجھ کو پسند نہیں آئے تو میں نہیں پہنوں گی۔"
"ارے ایسے نہیں کہتے، سسرال والوں کی پسند کا خیال رکھو، اور اس بات کو درگزر کر دو، فضول میں اُن کو بُرا لگ گیا تو آگے تم کو مشکل ہوگی" ندا کا دل بجھ سا گیا۔
"کہاں کھو گئیں بھئی؟" عذرا باجی نے اُس کو ٹوکا تو وہ ماضی کے جھروکوں سے باہر آئی۔
"جی میری ہی پسند کے تھے دونوں دِنوں کے جوڑے" وہ بس اتنا ہی کہ پائی۔
چائے کے دوران یہاں وہاں کی باتیں ہوتی رہیں جب نگہت آپا کی نظر سمرہ کی انگلی میں پڑی انگوٹھی پر گئی، وہ فوراً بولیں :" تو کیا یہ دی ہے تمہارے میاں نے بیٹی کے ہونے پر؟" " نہیں نہیں یہ تو ابھی شادی کی سالگرہ پر دی ہے، بیٹی کے ہونے پر تو کنگن دیئے تھے " سمرہ نے تھوڑا اتراتے ہوئے بتایا۔
"اوہ ہو کیا بات ہے، بیٹی کے ہونے پر کنگن، ورنہ لوگ کہاں خوش ہوتے ہیں بیٹیوں کے ہونے پر" عذرا باجی کہا
"ارے نہیں جناب میرے میاں ایسے نہیں ہیں ، انہوں نے تو good news کا سُن کر اچھا سا ڈنر کرایا، سونے کی چین دی اور پورے وقت میں میرا بہت خیال رکھا" سمرہ بتا رہی تھی اور ساتھ میں دو اور خواتین بھی اپنے ناز نخروں کا بتانے لگیں ۔۔۔ ندا بس تھوڑی دیر اور بیٹھ کر وہاں سے اُٹھ آئی۔
گھر آکر اُس کا بجھا بجھ چہرہ دیکھ کر عمران نے پوچھا ، " تم ٹھیک ہو؟"
"ہوں" ندا نے مختصر اً کہا اور اپنے کمرے میں آکر میک اَپ صاف کرنے لگی
رات کے کھانے سے فارغ ہو کر وہ کچن صاف کرنے لگی پھر گھر کی بکھری چیزوں کو سمیٹ کر وضو کرنے چلی گئی۔
اُس کے اس عمل سے عمران سمجھ گیا تھا کہ یقیناً وہ کسی بات پر دکھی ہو کر آئی ہے، کسی نے دانستہ یا نا دانستہ طور پر کوئی ایسی بات کر دی ہوگی جس سے اس کو تکلیف ہوئی ہوگی اور اس تکلیف کو یہ اکیلے ہی ایک آدھ دن جھیلے گی خاموش رہے گی پھر نارمل ہو جائے گی۔ اُس کی سرشت میں شور شرابا کرنا نہیں تھا، نہ ہی شکایتیں کرنا اور طعنے دینا، شاید اگر وہ ایسا کرتی تو خود کو اتنی تکلیف میں نہ ڈالتی۔ وہ جانتا تھا کہ آج وہ چپ چاپ سارے کام نمٹا کر کھڑکی کھول کر آسمان کو دیکھتی رہے گی پھر تھک کر سو جائے گی۔ اور اس پورے عمل میں مخل نہیں ہوگا۔
"آپ سو جائیں میں باہر نماز پڑھ لیتی ہوں" ندا نے عمران سے کہا۔
"اچھا ذرا کھڑکی کھول جاؤ، کمرے میں گھٹن سی ہو رہی ہے" عمران نے کہا ( اس کو پتا تھا کہ ندا کو نماز کے بعد آسمان کو تکتے ہوئے اپنے دل کو ہلکا کرنا ہے اور اگر کھڑکی بند ہوئی تو وہ آکر اس خیال سے نہیں کھولے گی کہ کہیں عمران کی آنکھ نا کُھل جائے ، اس لیئے عمران نے اُس کا کام آسان کردیا تھا)
وہ نماز پڑھنے لاؤنج میں چلی گئی، جب وہ نماز سے فارغ ہوئی تو کمرے میں آکر بیڈ سے ٹیک لگا کر نیچے ہی بیٹھ گئی اور کھڑکی سے باہر پُر سکون آسمان کو دیکھنے لگی جس نے اپنی آغوش میں کروڑوں ستاروں کو لیا ہوا تھا اور مُسکراتا چاند بڑے ٹھاٹ سے انکے جُھرمٹ میں سجا ہوا تھا۔ وہ آسمان کو تکے گئی اور ماضی کی یادوں میں کھوتی گئی، جب اُس نے بہت خوش ہوکر عمران کو آفس میں فون کر کے بتایا تھا کہ اِن کے یہاں خوشخبری ہے، اور جواب میں عمران نے کہا" او کے" بس اس سے زیادہ کچھ نہیں، وہ سمجھ نہیں پائی کہ یہ کیسا جواب تھا۔۔۔ نہ کوئی خوشی نہ مبارکباد۔۔۔ اُس کا دل بجھ کر رہ گیا۔ گھر آکر بھی عمران نے کوئی خاص ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔۔۔ تو اُس نے پوچھا کہ کیا آپ کو خوشی نہیں ہوئی، جس پر عمران نے کہا کہ ابھی ہم تھوڑا سیٹ ہو جاتے۔۔۔ ندا ان تکلیف دہ لمحوں کو یاد کر کے ہمیشہ اُسی اذیت سے گزرتی تھی جیسے کہ وہ اُس وقت گزری تھی۔۔۔ وہ جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتی تھی بلکہ کوئی نہ کوئی ایسی بات ہو جایا کرتی تھی جو اُس کو ماضی میں دھکیل دیتی تھی۔۔۔ بیٹے کی ولادت کے بعد بھی اُس کو ایسا محسوس نہیں ہوا کہ وہ اب کچھ خاص ہو گئی ہے، عمران نے وہی واجبی سا روّیہ رکھا، وہ جان نہیں پاتی تھی کہ وہ عمران کے لیئے کوئی اہمیت رکھتی بھی ہے یا بس جیسے باقی تمام رشتے ہیں وہ بھی ویسی ہی ہے۔ عمران نے بیٹے کے ہونے پر اُس کو محض یہ کہا کہ "تم کو مبارک ہو" جیسے باقی تمام جاننے والے آکر اس کو کہ رہے تھے بالکل ویسے ہی۔ رُقیہ (ندا کی پڑوسن) اُس کا بہت خیال رکھتی تھی ، اُس دن بھی وہ کھانا لے کر آئی تو پوچھنے لگی " کیوں بھئی عمران بھائی نے کیا دیا بیٹے کے ہونے پر؟"، تو ندا نے کہا "ابھی ٹائم ہی نہیں ملا بازار جانے کا ان کو،" اس پر رُقیہ ہنسی اور کہنے لگی " اتنی پردہ پوشی نہیں کیا کرو، اپنی اہمیت کا احساس دلاؤ، ورنہ ان مَردوں کو تو موقع چاہیئے ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کا، ارے بھئی جان کی بازی لگا کر عورت اولاد دیتی ہے، تو اتنا تو کر سکتے ہیں نہ کہ تھوڑے سے ناز اُٹھا لیں"
ندا کو کبھی کہہ کر کوئی کام کرانا نہیں آیا، اُس کا خیال تھا کہ کسی نے عزت، محبت یا خیال کرنا ہے تو خود سے کرے ، کسی سے کہہ کر کرایا تو کیا کرایا۔۔۔۔
ساری پرانی باتیں یاد کرتے کرتے وہ سوچنے لگ جاتی کہ اُس سے کہاں غلطی ہوئی ہے، کیوں اس کی نرم مزاجی اور درگزر کرنے والی عادت کو لوگ اپنے فائدے کے لیئے استعمال کرتے ہیں۔ کیوں لوگ کسی کی زندگی کے لمحوں کو اتنا بدنما بنا دیتے ہیں کہ کبھی جب وہ ماضی کے لمحوں میں جینا چاہیں تو سوائے تکلیف کے وہ کچھ نہ پا سکیں۔
وہ ماضی میں جینا نہیں چاہتی تھی ، اسی لیئے وہ خود کو اتنا مصروف رکھتی تھی کہ اُس کا موقع ہی نہ ملے کہ وہ گزرے لمحوں کو یاد بھی کرے مگر کبھی کبھی ایسا ہو جاتا تھا کی کسی کی کوئی بات یا کوئی عمل اُس کو وہاں دھکیل دیتا تھا جہاں سے نکلنے کے لیئے اُس کو پھر اپنی ذات کی نفی کرنی پڑتی تھی۔
آسمان کو دیکھتے دیکھتے وہ دل ہی دل میں نجانے کب اللہ سے اپنے دل کا حال کہنے لگتی " پیارے اللہ تعالیٰ آپ تو جانتے ہیں میں کیسی ہوں، میں کسی کا بُرا نا چاہتی ہوںنہ کرتی ہوں، بس میرا دل بہت دُکھا ہوا ہے اُن سب باتوں سے جن کو مجھے محض دوسروں کی انا کی تسکین کے لیئے جھیلی پڑیں، کیا تھا جو میری ساس، نند اور سسر میری خوشی کا خیال کر لیتے، ہر ہر موقع پر انہوں نے یہ جتایا کہ وہ لڑکے والے ہیں اور مجھے اور میری امّی کو ان کا ہر رویّہ برداشت کرنا ہے ، کیا تھا جو میرا شوہر اپنی ذات کے علاوہ بھی کچھ دیکھتا۔۔۔کیا تھا جو وہ اُس کو اپنے گھر میں عزّت دلاتا، بس اللہ میں نے جو کچھ جھیلا اور کبھی تجھ سے ان لوگوں کے لیئے برا نہیں مانگا اِ س کے بدلے میں مجھ کو دل کا سکون دے ، اور ان کو احساس دلا کہ انہوں نے کسی کی زندگی کے اُن لمحوں کو تکلیف دہ بنایا ہے جو کسی کی زندگی کی متاع ہوتے ہیں، جن کو کبھی وہ فرصت کے لمحات میں یاد کرکے پھر سے جی اُٹھتا ہے۔۔" دھیرے دھیرے اس کی آنکھوں سے دل کا بوجھ آنسوؤں کی صورت میں نکلتا گیا اور وہ آسمان پر موجود چاند کو ایک ٹِک دیکھے گئی جیسے کہ وہ بھی اس کی تکلیف سے واقف ہو۔
وہ بے دلی سے بوجھل قدموں سے اُٹھی اور سونے کے لیئے لیٹ گئی، صبح اُس کو نئے دن کی شروعات کرنی ہے ہمیشہ کی طرح نئی اُمید کے ساتھ۔ وہ مطمئن تھی کہ کم از کم دن کا یہ لمحہ تو اس کا اپنا ہوتا ہے جس میں وہ ہوتی ہے، رات کی خاموشی ہوتی ہے اور پُر سکون آسمان پر موجود چاند ہوتا ہے جس کی موجودگی میں وہ اللہ سے وہ ساری باتیں کرتی ہے جو کبھی کسی سے نہیں کی ہوتیں۔اُٹھتے وقت اُس کا دل مطمئن ہو چکا ہوتا ہے ، اُس کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اللہ نے اُس کی ساری باتیں سن لی ہیں اور اس کے دل کو اطمنان دلایا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔
صبح جب اُس کی آنکھ کھلی تو باورچی خانے سے آتی برتنوں کی آواز سے اندازہ ہوگیا کہ عمران اُٹھ گیا ہے ، وہ جلدی سے فریش ہو کر باورچی خانے میں گئی تو دیکھا کہ وہ آملیٹ بنا رہا تھا ، اس کو دیکھ کر مسکرایا اور چائے کی طرف اشارہ کر کے کہا،" یار ذرا چینی ڈال دو میں بھول گیا ، اور جا کر بیٹھو میں بس آملیٹ لے کر آ رہا ہوں۔ بچّوں کو سونے دینا ابھی بس ہم دونوں بیٹھ کر ناشتہ کریں گے"۔ وہ چائے کے مگ لے کر ڈائننگ روم کی طرف چلی گئی۔ " چند ہی لمحوں میں عمران آملیٹ لے کر آگیا اور اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا " چلیں میڈم جلدی سے شروع کریں اس سے پہلے کہ ٹھنڈا ہو جائے" اُس نے مسکراتے ہوئے پلیٹ پکڑی اور دل ہی دل میں اللہ سے کہا، آپ کا صد شکر ، عمران کی زندگی میں مجھ کو اہمیت دلانے کے لیئے، آپ بیشک مشکل کے بعد آسانی دیتے ہیں۔ میری رات کی باتوں کو میرا نا شکرا پن نا جانیئے گا ، بس کبھی دل بھر آتا ہے تو بس آپ کے آگے ہلکا کر لیتی ہوں، یہ تو آپ جانتے ہیں کہ میں اپنے حال سے بہت مطئن ہوں، جانتی ہوں کہ آپ زندگی میں تلخ حالات ہمیں
کُندن بنانے کے لیئے دیتے ہیں، مگر کیا کروں بندہ بشر ہوں ہمّت ہار جاتی ہوں تو یہ سوچنے لگتی ہوں کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ لوگ اپنے روّیوں سے دوسروں کو تکلیف نہ دیتے۔کسی کی زندگی کے سکون کو برباد نہ کرتے، مگر پھر یہ سوچ کر خود کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں کہ یہی تو امتحان ہے صبر اور شُکر کا۔۔۔"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
コメント