top of page

کراچی بول اُٹھا

  • Writer: Baithak | بیٹھک
    Baithak | بیٹھک
  • Sep 29, 2020
  • 1 min read

شاعر: محمد عثمان جامعی


ree

کراچی ہوں، سمندر کے کنارے پر ٹھکانا ہے

ہر اک پَل دل کو یہ دھڑکا کوئی طوفان آنا ہے


چلو یہ طے ہوا مجھ کو ستانا ہے، جلانا ہے

بس اب اتنا بتادو کیا مجھے یکسر مٹانا ہے؟


مرے ”ساتھی“، مرے رہبر، مرے دشمن، مرے راہ زن

عجب اسرار ہے، ان سب میں گہرا دوستانہ ہے


مرے سینے پہ گھاﺅ میرے اپنوں نے لگائے ہیں

اور اپنے بھی کہاں، کب کس نے مجھ کو اپنا جانا ہے


وطن جانو، نگر سمجھو، رہو مجھ میں تو گھر سمجھو

مگر تم نے تو مجھ کو صرف سمجھا کارخانہ ہے


مجھے بس یاد رکھنا ہے، کماﺅ پوت ہوں ماں کا

مری کوئی ضرورت ہے، مجھے یہ سب بُھلانا ہے


لیاری ہوں، میں لانڈھی ہوں، میں کیماڑی، اورنگی ہوں

مجھے تم توڑتے ہو، اور مجھے خود کو بچانا ہے


میں بیٹا سندھ کا ہوں، ناز سے کہتا ہوں یہ، لیکن

سگا ہوں یا کہ سوتیلا، یہ اب تم کو بتانا ہے


اے میرے دعوے داروں کیوں مجھے تم چھوڑ جاتے ہو

سیاست کے لیے میں، پھر کہیں باہر ٹھکانا ہے


ابھی کچھ روشنی ہے، دیکھ لیجے مجھ کو جی بھر کے

کہ تاریکی میں مجھ کو جانے کس دم ڈوب جانا ہے


جو مجھ میں آبسا میں نے اسے فرزند ہی سمجھا

نہیں دیکھا، زباں ہے کیا، نیا ہے یا پُرانا ہے


مری آبادی کم کرنے کا تم کو شوق ہے کتنا

تم آدھا کرچکے ہو، اب کہو کتنا گھٹانا ہے


اراضی ہی مجھے سمجھا گیا، یہ ہے میرا مسئلہ

خدارا! مجھ کو سمجھو شہر، سمجھو آشیانہ ہے


لُہو سے مجھ کو نہلایا، مگر پانی نہ دے پائے

مجھے کیا پیاس اپنی اپنے ہی خوں سے بُجھانا ہے؟

Comments


Subscribe Form

©2020 by Baithak. Proudly created with Wix.com

bottom of page