عورت ہی عورت کی دشمن۔۔۔۔
- Baithak | بیٹھک

- Jun 2, 2020
- 5 min read
از قلم:سبین سبزواری

یہ ازل کی بحث ہے کہ "عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے"، اس بارے میں میری رائے اکثر متزلزل رہتی تھی، کبھی لگتا تھا کہ یہ بات بالکل درست ہے اور کبھی لگتا تھا کہ ایسا بالکل نہیں ہے مگر بعض واقعات ایسے نظر سے گزرے ہیں جس کے تناظر میں یہ تو مجھ پر واضع ہوگیا کہ واقعی عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ چاہے کتنا بھی یہ بات باور کرائی جائے کہ "مرد عورت کا اتنا دشمن نہیں ہوتا جتنی عورت یہ عورت کی دشمن ہوتی ہے"، اس کا ذرّہ برابر بھی اثرنہیں ہوتا ۔ یہ آج تک نہیں ہوا کہ اس حقیقت کو جاننے کے بعد کسی بہو نے اپنی ساس سے روّیہ بدلاہو یا کسی ساس نے بہو کو بیٹی سمجھا ہو، کسی نند کو اپنی بھابی میں اپنی سہیلی نظر آئی ہو یا کسی بھابی کو اپنی نند میں اپنی خیر خواہ نظر آئی ہو، کسی جٹھانی کو دیورانی سے جلن نہ ہوئی ہو یا پھر کسی دیورانی کو جٹھانی میں بڑی بہن کا روپ دِکھا ہو۔ یہ تو چلیں ایک گھرانے سے متعلق رشتے ہیں، اَب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ لڑکیاں یا عورتیں دوسری عورت کا بسا بسایا گھر توڑنے سے بھی گریز نہیں کرتیں وہ اس انتظار میں ہوتی ہیں کہ کب کسی گھر کا مرد ان کے ہاتھ لگے اور وہ اس سے رشتہ جوڑ کر اپنا مستقبل مستحکم کریں۔
عورت کا دوسری عورت سے رشتہ ایک مرد کی وجہ سے جُڑا ہوتا ہے، اب وہ چاہے بیٹے کی صورت میں ہو، شوہر کی یا بھائی کی ۔ اگر ساس بہو کا تناؤ دیکھیں تو وہ یہ ہی ہوتا ہے کہ بیوی سارا حق اپنا سمجھتی ہے اور ماں اپنا۔ ایسی صورت میں اگر بیوی خود کو ساس کی جگہ رکھ کر سوچے کہ جس نے اپنا پلا پلایا بیٹا سونپ دیا ، اپنی دن رات کی محنت، اپنی توجّہ کا مرکز اپنے آگے پیچھے گھومنے والا ، تو اس کو اگر تھوڑا مان دے دیا جائے کہ یہ ابھی بھی آپ کا اتنا ہی فرمانبردار ہے ، اطاعت گزار ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بالکل اسی طرح ساس اگر خود کو بیوی کی جگہ رکھ کر سوچے کہ نئے گھر میں، نئے ماحول میں خود کو ڈھالنے اور اپنی جگہ بنانے کے لیئے ایک سازگار ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جو اگر مل جائے تو سارے مراحل آسانی سے طے ہوجاتے ہیں۔لہذہ وہ ماحول اور اپنائیت دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، مگر ہوتا اس کے برعکس ہے، میں نے بہت سے گھرانوں میں خود دیکھا ہے کہ ساس کا روّیہ بہت مشفقانہ ہے تو بہو صاحبہ گویا پانچوں انگلیاں گھی میں ڈال دیتی ہیں اور اس شفقت اور خیال کو یہ خیال کرتی ہیں کہ وہ تو ہیں ہی شہزادی لہذہ اس پروٹوکول میں اضافہ تو گوارا ہے مگر کمی ہضم نہیں کہ جائے گی۔اصل میں مشترکہ خاندانی نظام کےختم ہونے کی وجہ سے برداشت اور لحاظ دونوں ختم ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہو تو اس تربیت کے ساتھ آئی ہے کہ وہ اس گھر کو اپنا ہی گھر سمجھے گی مگر ساس کو یہ خوف لاحق ہوجاتا ہے کہ کہیں وہ اس گھر کو اپنا ہی گھر نہ سمجھ لے ، یعنی جس گھر کو اُس نے برسوں کی محنت سے بنایا ہے سنوارا ہے اس پر مالکن نہ بن کر بیٹھ جائے اور اب جب اُس ساس کا وقت آیا ہے ملکہ کی کرسی کا مزہ لینے کا اس کو کنارے لگا دے۔اس خوف کے پیشِ نظر وہ اپنا بےجا رعب دکھاتی ہے اور خاص کر اپنے بیٹے کو یہ بات باور کراتی رہتی ہے کہ ہم نے تم کو اتنی محنت سے پالا تھا اور اب تمہاری بیوی تم کو ہم سے الگ کر رہی ہے۔
ایسی ہی صورتحال تمام رشتوں میں ہوتی ہے، نند بھابی ہوں یا جٹھانی دیورانی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟
اس کا آسان حل تو یہ ہے کہ دونوں فریقین یہ بات جان لیں کہ جس بیچ کے رشتے کی وجہ سے یہ دونوں لڑ رہیں ہیں اس کا دونوں صورتوں میں کوئی نقصان نہیں ہو رہا، اب چاہے وہ مرد ماں کی طرفداری کرے یا بیوی کی، بہن کی کرے یا بیوی کی، بڑی بھابھی کی کرے یا بیوی کی۔ نقصان اگر ہو رہا ہے تو اس عورت ذات کا ہی ہو رہا ہے جو اپنا ہر جگہ مذاق بنوا رہی ہے- لطیفے بنتے ہیں تو اس پر، گالیاں بنتی ہیں تو اس پر، ظالم بنتی ہے تو یہ ہی۔
بجائے اس کے کہ وہ اپنے نئے رشتے کو اپنا دشمن سمجھ لے، اِس کو چاہئے کہ اس سے دوستی کر لے، اس کےساتھ باتیں کرے، مشورے کرے، گھومنے جائے ایک دوسرے کو اعتماد اور عزّت دے۔ ایک دوسرے کی لگائی بجھائی چھوڑ دے۔ مرد ایک حد تو سنتا ہے پھر وہ ان باتوں سے فرار چاہتا ہے اور باہر کی راہ لیتا ہے جہاں ایک اور عورت اس کی منتظر ہوتی ہے، یہ وہ عورت ہوتی ہے جسے محض اپنی ذات سے لگاؤ ہوتا ہے، وہ صرف اپنے آپ کو مستحکم کرنا چاہتی ہے ، اس کو کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ دوسرے کے گھر کو گرا کر اپنا گھر بنا رہی ہے۔ بلکہ وہ گھر بھی کہاں بناتی ہے وہ تو بس مالی فائدہ حاصل کرتی ہے۔ایسی صورت میں مرد سے زیادہ وہ باہر کی عورت لعن طعن کی مستحق ہوتی ہے، کیونکہ اگر وہ مرد کو یہ موقع فراہم نہ کرتی کہ وہ باہر موجود ہے تو مرد باہر کا رُخ کرنے سے پہلے دس بار سوچتا ضرور۔
اسی لیئے یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر کسی عورت کا شوہر باہر کسی سے چکر چلاتا ہے تو زیادہ بُرا بھلا اُس باہر والی عورت کو کہا جاتا ہے۔ بیشک مرد بھی غلطی پر ہوتا ہے مگر جب اپنا ہم جنس ہی آپ کے ساتھ وفادار نہ ہو تو مرد سے کس بات کی شکایت۔ گھروں میں ظلم و زیادتی کی مثالیں عام نظر آتی ہیں یہاں بھی یہی المیہ ہے کہ عورت ہی عورت کے لیئے ڈھال نہیں بنتی اسی لیئے مرد کی ہمّت ہوتی ہے کہ وہ ظلم کرے۔ اگر ساس بہو کے حق میں کھڑی ہو جائے تو کوئی شوہر بیوی پر ظلم نہ کرے ، اگر بہو ساس کو ماں جیسی عزّت دے تو کوئی ماں بیٹے کی تیز آواز کے ڈر سے نہ دب کر بیٹھے۔ گھرانہ باہمی محبت اور عزّت سے چلتا ہے مگر ہمارے یہاں ہوتا یہ ہے کہ اس کو ایک محاذ کی صورت دے دی جاتی ہے کہ چلو آؤ دنگل شروع کریں۔
ایسا نہیں ہے کہ عورت محض مظلوم ہی ہے، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بہت سے گھروں میں عورتوں کہ ناقابلِ فہم روّیوں نے اُن کے جنّت جیسے گھر کو جہنم بنا دیا ہے، مگر یہ ایک الگ بحث ہے۔ فی الحال یہاں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ کس طرح ایک عورت اپنے رشتوں کے تقدس کو سمجھتے ہوئے اپنی زندگی کو جنت بنا سکتی ہے۔ یہاں صرف ایک پہلو کی طرف نشاندہی کی گئی ہے، اگر ہم اس پر توجّہ دیں تو دیگر پہلوؤں کی طرف پیش رفت کرنے میں آسانی ہوگی۔ اب یہاں یہ ہر گِز نہ سوچیئے گا کہ یہ کوئی عورت اور مرد کے درمیان بحث کو فروغ دینے والا مضمون ہے، یہ محض پیغامِ خیر سگالی ہے، خیر مانگیں گے تو خیر ملے گی۔آپس میں دوست بنیں گے تو ہی باہمی مسائل کو حل کر سکیں گے۔
از قلم: سبین سبزواری








Comments