top of page

اخلاق کا امتحان

  • Writer: Baithak | بیٹھک
    Baithak | بیٹھک
  • Sep 18, 2020
  • 8 min read

تحریر: سبین محبوب / سبزواری



ree

"ابّو ، اسلم انکل آئے ہیں"، کاشف نے آکر اپنے والد کو اطلاع دی۔

"بٹھاؤ اُن کو ڈرئنگ روم میں ، میں ابھی آتا ہوں، اور ہاں ذرا چائے پانی کا پوچھ لینا" فاروق صاحب نے بیٹے کو ہدایت دی۔

" لو جی آگئے اسلم بھائی ، اب گئے تمہارے ابّو کے دو چار گھنٹے ان کے ساتھ"، بیگم فاروق کو اسلم صاحب ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے۔

"ایسے نہیں کہتے بیگم، مہمان تو اللہ کی رحمت ہوتا ہے"، فاروق صاحب نے ٹوکا۔

" ہاں اگر مہمان کو بھی اس بات کا پتا ہو تو، یہاں تو اسلم بھائی زحمت بننے دیر نہیں لگاتے" بیگم فاروق نے تیز تیز استری کرتے ہوئے کہا۔یہ ان کا خاص انداز تھا ، جب کوئی بات انکو نا گوار گزرتی ان کے ہاتھوں میں پُھرتی آ جاتی۔

"چلو ایک فائدہ تو ہوا اسلم کے آنے سے، اب میرے کپڑے ذرا جلدی استری ہو جائیں گے" فاروق صاحب نے دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ بیگم کے تیز ہاتھ چلانے پر چوٹ کی اور ڈرائنگ روم میں چلے گئے۔

ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی انہوں نے اسلم صاھب کو بڑے ہی پُر تپاک انداز میں سلام کیا اور حال احوال پوچھا۔ ایسا محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا کہ اندر ان کے بارے میں کیا رائے دی جا رہی تھی۔

بیگم فاروق بِلا وجہ نہیں چڑتی تھیں اسلم صاحب سے، دراصل اسلم صاحب کو بولنے کی بیماری تھی، وہ بِلا تکان بولا کرتے تھےاور ان کی اکثر باتیں اُن کی ذات کے گرد ہی چکر لگا رہی ہوتی تھیں ، جیسے کہ میں نے یہ کیا، میں نے یہ لیا ، میں ایسا ہوں، میں ایسے کرتا ہوں وغیرہ وغیرہ، یعنی کہ چلتا پھرتا "میں نامہ " تھے اسلم صاحب۔ اس کے علاوہ باتوں کو بڑھا چڑھا کر بتانا اور بحث برائے بحث کرنا ان کے لیئے عام بات تھی۔

اس قسم کی باتیں ہضم کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے اور وہ بھی ہفتے میں کم از کم دو یا تین بار، یہ تو داد دینی چاہیئے فاروق صاحب کو کہ وہ بنا پیشانی میں بل لائے اسلم صاحب کا "میں نامہ " بڑے غور و خوض سے سنتے تھے۔ بس اسی بات پر بیگم فاروق کو چڑ ہوتی تھی کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اسلم صاحب دو یا تین گھنٹے سے کم بیٹھے ہوں اور ان کے جانے کے بعد فاروق صاحب نے چائے کا ایک اور کپ نہ پیا ہو تاکہ ان کے سر کا درد کچھ ٹھیک ہو۔ گھر میں بچّے بھی اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اسلم صاحب کو کوئی خاص پسند نہیں کیا جاتا۔ آج بھی ایسا ہی ہوا، اسلم صاحب کو جب بیٹھے بیٹھے تین گھنٹے ہو گئے تو بیگم فاروق نے بیٹے کے ذریعے ڈرائنگ روم میں پیغام بھجوایا، " ابّو، امّی کہ رہی ہیں کہ میں رکشے میں ہی چلی جاتی ہوں بازار " کاشف کے یہ کہنے پر فاروق صاحب نے اِسے حیرت سے دیکھا۔

"ارے! بھابی کو کہیں جانا تھا، آپ نے بتایا ہی نہیں فاورق بھائی، میں تھوڑا زیادہ بیٹھ گیا میرے خیال میں اب چلنا چاہیئے مجھ کو" اسلم صاحب نے کہا۔

" خیر ہے کوئی بات نہیں ، میں ابھی لے جاتا ہوں بیگم کو" فاروق صاحب نے جلدی سے کہا، جیسے کہ اب اُن کی بھی بَس ہو گئی ہو۔

اسلم صاحب کو رُخصت کر کے وہ اندر لاؤنج میں گئے تو دیکھا کہ بیگم فون میں مصروف ہیں ، غالباً فیس بُک میں گُم تھیں ساتھ میں چائے کا مگ رکھا تھا، یعنی کہیں بھی جانے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے۔

"محترمہ فرمائیے کہاں جانا ہے" فاروق صاحب نے بیگم سے کہا۔

"کس کو جانا ہے؟" بیگم فاروق نے فون کو پَرے رکھتے ہوئے کہا

"کاشف کےذریعے کہلوایا تھا نا تم نے کہ بازار جانا ہے" فاروق صاحب نے گویا بیگم کو یاد دِلایا،

" اچھا وہ! نہیں بھئی کہیں نہیں جانا، اَب کاشف کو نہ بھیجتی تو آپ وہیں بیٹھے رہتے اسلم بھائی کی سوانح عمری لکھنے کے لیئے ان کی جنم بپتا سنتے رہتے" بیگم فاروق نے تُنک کر کہا

"ارے کیا انڈیا کے ڈرامے دیکھ رہی ہو، کیا عجیب بولی بول رہی ہو؟" فاروق صاحب جو کہ اپنے حلقے میں صاحبِ زبان مانے جاتے تھے، بیگم کے منہ سے "جنم بپتا" سُن کر بدک گئے۔

" دیکھیں فاروق، آپ کی بھی سجمھ نہیں آتی، ابھی اسلم بھائی کے آنے سے پہلے آپ کہ رہے تھے کہ سر میں درد ہو رہا ہے تھوڑی دیر آرام کر لیتا ہوں ، مگر اسلم بھائی کے آتے ہی آپ نے آرام کو رکھا ایک طرف اور تین گھنٹے تک ان کی بے تکی سن سن کر مزید درد کر لیا اپنے سر میں، آپ کاشف سے کہ دیتے کہ اسلم بھائی کو کہ دو کہ ابو گھر پر نہیں ہیں یا سو رہے ہیں" بیگم فاروق نے اپنے جھوٹ کی تاویل پیش کی۔

اسلم صاحب کو بیگم کا بچّوں کے سامنے کسی کے لیئے نا پسندیدگی کا اظہار کرنا ویسے ہی برا لگتا تھا کُجا یہ کہ آج انہوں نے کاشف کے ذریعے جھوٹ کہلوایا۔ فی الوقت تو انہوں نے کچھ نہیں کہا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ابھی کچھ کہنا بحث کو جنم دےگا اور جو بات وہ سمجھانا چاہتے ہیں وہ اس بحث میں گم ہو جائے گی لہذہ وہ خاموشی سے بُک شیلف سے ایک کتاب اُٹھا کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ رات کے کھانے کے بعد ان کا معمول تھا کہ وہ کم از کم پندرہ منٹ کی چہل قدمی کیا کرتے تھے اس لیئے انہوں نے کھانے کے وقت بچّوں سے کہا کہ آج کچھ بات کرنی ہے لہذہ میں چہل قدمی کرے کے آؤں تو میرے کمرے میں آ جانا۔

بچّے اپنے والد کی اس بات سے بخوبی واقف تھےکہ جب کوئی بات سمجھانی ہوتی تھی تو وہ کھانے کے بعد کے وقت کا ہی انتخاب کرتے تھے اور اس کی وجہ اُنہوں نے یہ بتائی تھی کہ چونکہ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد سب سونے چلے جاتے ہیں اور مزید کہیں مصروف نہیں ہوتے تو اس طرح جو بات سمجھائی جاتی ہے وہ ذہن میں جانے والی دن کی آخری بات ہوتی ہے اور رات بھر وہ ذہن میں گردش کرتی ہے ، اسی لیئے ساری عمر کے لیئے ذہن نشین ہو جاتی ہے۔

چہل قدمی سے فارغ ہو کر جب وہ اپنے کمرے میں گئے تو بچوں کے ساتھ ساتھ بیگم کو بھی منتظر پایا۔

" بہت شکریہ انتظار کرنے کے لیئے" انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، یہ بھی ان کی اچھی عادتوں میں سے ایک اچھی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ کسی کے بھی بات ماننے پر اسکا شکریہ کہا کرتے تھے- ایسا کرنے سے کہنا ماننے والے یا بات ماننے والے کا حوصلہ بڑھتا تھا۔ اسی طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے انہوں نے اپنی شخصیت کو جاذب بنایا ہوا تھا۔

"ہاں تو جناب کچھ اندازہ ہے کہ آج میں کیا بات کرنا چاہ رہا ہوں؟" انہوں نے سب کو اپنی طرف متوجّہ پا کر پوچھا

"نہیں ابّو" کاشف نے کہا

" بیٹا یہ بتاؤ کہ اخلاق کسے کہتے ہیں؟" فاروق صاحب نے دونوں بچّوں سے پوچھا

"Good Manners" صبا نے کہا

" ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر بیٹا اصل میں اخلاق یہ ہے کہ آپ اس کے ساتھ اچھی طرح پیش آئیں جو آپ سے بُری طرح پیش آتا ہے، یا آپ اس کے ساتھ اچھا روّیہ رکھیں جو آپ کو زیادہ پسند نہیں ہے، کیونکہ دیکھو نا جو آپ سے اچھی طرح سے پیش آتا ہے یا جو آپ کو اچھا لگتا ہے اُس سے تو ظاہر ہے آپ اچھی طرح ہی پیش آئیں گے تو پھر اخلاق کا امتحان کہاں ہوا، اخلاق کا امتحان تو تب ہے نا جب آپ اُس شخص کو عزّت دیں جو آپ کو عزّت نہیں دیتا یا اُس شخص کا خیال رکھیں جو آپ کو کسی بھی وجہ سے ناپسند ہو" فاروق صاحب نے محبت میں گھُلے لہجے میں کہا۔

"اب یہ تو بڑا مشکل ہے بھئی، میں تو سمجھتی ہوں کہ جو پسند نہیں ہے اس سے دور دور ہی رہو" بیگم فاروق نےاپنا نظریہ پیش کیا۔

" ارے یہ کیا بات ہوئی ، اگر امتحانی پرچے میں موجود مشکل سوال چھوڑتے جائیں گے تو پھر تو ناکام ہو جائیں گے نا، کامیاب ہونے کے لیئے اور اچھے نمبروں سے کامیاب ہونے کے لیئے تو مشکل سوالات بھی اتنے ہی اچھے طریقے سے کرنے ہونگے جتنے کے آسان سوال حل کیئے ہوں' فاروق صاحب نے نرمی سے سمجھایا۔

" ابو یہ تو بہت مشکل ہے " کاشف نے کہا۔

" نہیں بیٹا یہ کام ذرا سا بھی مشکل نہیں ہے، اگر تم دل میں یہ یقین کر لو کہ تمہارے اس عمل سے اللہ خوش ہو رہا ہے ، تمہارا درجہ بڑھ رہا ہے تو تم کو یہ کام مشکل نہیں لگے گا" فاروق صاحب نے سمجھایا

"اللہ نے ہم سب کے ساتھ کوئی نا کوئی ایسی بات جوڑ دی ہے جو کہ ہمارے لیئے آزمائش ہے یا یوں سمجھو کہ ہمارے اس دنیا میں امتحان کا بہت اہم سوال ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہم کو اس بات کا یا اس عادت کا پتا نہیں ہے، جیسے کہ اگر مجھے بات بے بات جھوٹ بولنے کی عاد ت ہو اور میری یہ عادت اتنی پختہ ہو کہ اب وہ مجھ کو اُس کے ہونے کا اندازہ ہی نہ ہو تا ہو تو یہ میرا امتحان ہے کہ میں کیسے اس بُری عادت کو پہچانوں اور کیسے اس ساے چُھٹکارا پاؤں ، یہ تو ہو گیا میرا امتحان اور تم لوگ میری اس عادت کو جانتے ہوئے میرے ساتھ کیسے اخلاق سے پیش آتے ہو ، یہ ہوگیا تمہارا امتحان۔ اسی طرح ہم سب کی ذات کے ساتھ ایسی عادات جڑی ہوئی ہیں۔جن سے ہم کو لڑنا ہے۔" فاروق صاحب نے سمجھایا

" اچھا جی یہ اب آتے ہیں اسلم بھائی کی طرف، دیکھو بیٹا ابھی جن باتوں کا ذکر کیا تھا اس کی مثال تمہارے سامنے ہی ہے۔ اسلم بھائی کی کس بات سے تم لوگ اُن سے چڑتے ہو؟" فاروق صاحب نے پوچھا

"یہی کہ اتنی دیر بیٹھتے ہیں ایک ہی گردان کرتے رہتے ہیں ، یہاں کی وہاں کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ" بیگم فاروق نے فوراً ہی فہرست جاری کردی، بچّے بھی ان کی تائید میں سر ہلانے لگے۔

"تو ہمارے اخلاق کا امتحان یہاں پر یہ ہے کہ ہم بہت احسن طریقے سے اُن کو وقت دیں اور ساتھ ہی ساتھ نامعلوم طریقے سے ان کو یہ بتائیں کہ اُن کی یہ عادت دوسروں کے لیئے تکلیف کا باعث ہے، وہ نامعلوم طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم ان کو کوئی ایسا آڈیو کلپ بھیجیں جس میں زیادہ بولنے کے نقصانات کا بتایا جائے ، یا اس سے بھی زیادہ احسن طریقہ یہ ہے کہ اپنے بارے میں بتائیں کہ جیسے میں رات کو سونے سے پہلے اپنے دن کا حساب کرتا ہوں کہ میں نے آج دن کیسے گزارا، کو ئی جھوٹ تو نہیں بولا، لایعنی گفتگو تو نہیں کی، دل تو نہیں دُکھایا ، وقت تو ضائع نہیں کیا ، ایسا کرنے سے میں بہت سکون سے سوتا ہوں ، آپ بھی کیا کریں، پھر اگلی ملاقات میں ان سے پوچھیں کہ آپ نے کیا تھا اپنا احتساب، بہت ممکن ہے کہ اس طرح ان کو اپنی اُس عادت کا احساس ہو جائے۔ "

فاروق صاحب نے متانت سے سمجھایا۔

"دیکھو بیٹا کسی ایسی شخصیت کا ہم سے جُڑنا یا ہم سے واسطہ پڑنا جو ہم کو کسی بھی وجہ سے پسند نہ ہو اصل میں ہمارے اخلاق کا امتحان ہوتا ہے اور ہم کو اُس امتحان سے بھاگنا نہیں ہے نہ ہی اُس شخص کو بُرا بھلا کہنا ہے، ہم کو اپنے اس امتحان سے اچھے طریقے سے نکلنا ہے۔ہم سب میں ہی کوئی نہ کوئی ایسی عادت ہے جس سے مقابلہ کرنا ہی اصل میں شیطان کو پچھاڑنا ہے- آج سے ایک کام کرو، جو جو تم کو کسی بھی وجہ سے ناپسند ہو اُس کے لیئے روز دُعا کرو کہ اللہ اس کی مدد کرے کہ وہ اس عادت کو چھوڑ دے اور ساتھ ہی یہ دُعا کرو کہ اللہ تم میں سے وہ عادت ختم کرے جس کی وجہ سے کسی کو کوئی تکلیف ہوتی ہو۔ اپنے مسلمان بھائی کے لیئے خلوص سے دُعا کرنا تمہاری اپنی ذات کے لیئے کی گئی دعا کے لیئے قبولیت کے دروازے کھول دیتا ہے۔بیٹا لوگوں سے اللہ کی رضا کی خاطر ملو ، ہماری اپنی ژات کی کوئی حیثیت نہیں ہے، ہماری خوشی ، ہمارا اطمینان ، ہماری رضا صرف اور صرف اللہ کی رضا میں ہونی چاہیئے، یہ بہت ہی آسان فارمولا ہے خوشی اور سکون حاصل کرنے کا۔"فاروق صاحب نے محبت سے سمجھایا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

1 Comment


t.subzwari
Sep 25, 2020

ماشااللہ، بہت پُر اثر تحریر ہے! 💕

Like

Subscribe Form

©2020 by Baithak. Proudly created with Wix.com

bottom of page