top of page

جَنّت

  • Writer: Baithak | بیٹھک
    Baithak | بیٹھک
  • Sep 1, 2020
  • 5 min read

تحریر: سبین محبوب / سبزواری


ree

ہمیشہ سے یہی سنتے آئے ہیں کہ ماں کے پیروں تلے جنّت ہوتی ہے۔ مجھ کو تو ایسا لگتا ہے کہ ماں پوری کی پوری جنّت ہوتی ہے۔

جیسے جنّت کے بارے میں سوچ کر راحت کا احساس ہوتا ہے، سکون سا ملتا ہے اور یہ اطمینان ہوتا ہے کہ وہاں کوئی پریشانی اور تکلیف نہیں ہوگی ، بالکل اسی طرح مجھے اپنی امّی سے بات کرکے ، اُن کے بارے میں سوچ کر، اُن سے ملکر یہی لگتا ہے کہ جیسے نہ کوئی پریشانی ہے نہ تکلیف ہے، زندگی بہت پُر سکون ہے۔

میری امّی کہ شخصیت متانت اور محبت سے بھرپور ہے۔ اُنہوں نے کبھی اپنی اولاد کو نفرت ، بغض اور حسد کے جذبے سے روشناس نہیں کرایا۔ اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ وہ تو کوئی مان نہیں کراتی، مگر ایسا نہیں ہے۔ اکثر مائیں اپنے طرزِ عمل سے اپنی اولاد میں یہ جذبے اُجاگر کرتی ہیں جن کی وجہ سے اولاد احساسِ کمتری، حسد اور بغض کو دل میں جگہ دے دیتی ہے۔

احساسات سب کے پاس ہوتے ہیں مگر یہ کوئی کوئی جانتا ہے کہ ان کا اظہار کب اور کیسے کرنا ہے اور کرنا بھی ہے یا نہیں۔

میں نے اپنی امّی کو کبھی بھی اپنے سسرال والوں کی بُرائی کرتے نہیں دیکھا ، بلکہ اس کے برعکس انہوں نے ہم سب بہن بھائیوں کو یہ ہی سکھایا اورسمجھایا کہ رشتہ داروں سے کیسے جُڑ کر رہتے ہیں، اگر ہم کو کسی کا رویّہ بُرا بھی لگ رہا ہوتا تھا اور دل چاہتا تھا کہ اُن کو ذرا کرارا سا جواب دیں تو امّی نے کبھی اس گستاخی کی اجازت نہیں دی، نہ ہی کبھی انہوں نے خود کسی سے بحث بازی کی۔ اُن کا ہمیشہ یہی کہنا ہوتا تھا کہ چلوچھوڑو ۔ اُن کا چہرہ ہمیشہ مسکراہٹ سے سجا رہتا ہے، ہر کوئی اُن سے بات کر کے یا مل کر متاثر ہوئے بنا نہیں رہتا۔

اگر آجکل کے دور میں دیکھیں تو ایسے روّیے کم ہی نظر آتے ہیں، ہم میں سے اکثر مائیں اپنے بچوں کو ہر ہر بات بتاتی ہیں جیسے کہ اگر نند یا ساس سے کوئی شکایت ہو تو بچوں کے سامنے ذکر کرتی ہیں جسکی وجہ سے بچوں کے دل میں اپنی دادی اور پُھپّی کی وہ عزّت اور محبت نہیں رہتی جو کہ ہونی چاہیئے۔ میں نے اپنی امّی کو ہمیشہ رشتہ داروں سے جُڑ کر رہتے دیکھا اور اس بات کی تلقین وہ آج تک کرتی ہیں، اکثر ابھی بھی پوچھتی ہیں کہ فلاں کو فون کیا ، فلاں کی خیریت معلوم کی چاہے کوئی اُن کو فون کرے یا نہ کرے اُن کی تلقین یہی ہوتی ہے کہ اپنے بڑوں کو پوچھتے رہا کرو۔

آجکل کم ہی مائیں ہیں جو اپنا غصّہ اپنے بچوں پر نہ اتارتی ہوں، بلکہ ابھی پچھلے دِنوں فیس بُک پر ایک پوسٹ نظر سے گزری جس پر کھا تھا کہ "بتائیں آپ میں سے کون کون اپنا غصّہ اپنے بچوں پر اتارتا ہے؟" تو بے شمار خواتین نے اپنی رائے کا اظہار کیا تھا کہ ہم ایسا کرتی ہیں۔

میں نے اپنی امّی کو کبھی غصّے سے چیختے ہوئے بھی نہیں دیکھا ، مارنا تو پھر بہت دور کی بات ہے، میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ امّی کو غصّہ آتا نہیں تھا یا وہ قابو کرنے میں ماہر تھیں۔ ہم سارے بہن بھائی کوئی بہت سیدھے اور بدھو قسم کے بھی نہیں تھے کہ کوئی شرارت کرتے ہی نہ ہوں، مجھ آج بھی یاد ہے کہ کیسی کیسی شرارتیں ہم کِیا کرتے تھے مگر اُن شرارتوں پر مدھم سی تنبیہ تو شاید کی ہو مگر مار یا ڈانٹ تو ہرگز نہیں۔

ایک دن امّی کو تھوڑا آرام کرنے کا موقع ملا، (ایسا موقع شاز و نادر ہی ملا کرتا تھا کیونکہ ہم پانچ بہن بھائی ہیں اور ہم سب کی عمروں میں کم کم ہی فرق ہے) دوپہر کا وقت تھا امّی کے اپنے ساتھ ہی ہم تین بچوں کو بھی لٹایا کہ تھوڑا آرام کر لو شام کو کھیل لینا، ابھی شور نہ کرو کیونکہ دونوں چھوٹے بھائی سو رہے ہیں، ہم تینوں اُس وقت تو لیٹ گئے مگر جیسے ہی یہ یقین ہوا کہ امّی سو گئی ہیں بڑی بہن نے مجھ کو اور بھائی کہ کان میں کہا کہ چلو باہر خاموشی سے کھیلتے ہیں۔ ہم دونوں بڑی بہن کے پیچھے پیچھے خاموشی سے چلے آئے۔ امّی نے چند دن پہلے ہی سردیوں کی آمد کی خاطر ہم بچوں کے سوئیٹر دھوپ لگا کر الماری میں تہہ لگا کر رکھے تھے، تو بڑی بہن نے وہ الماری کھولی ، کرسی رکھ کر سارے سوئیٹر باہر گِرائے اور مجھ سے اور میرے بھائی سے کہا چلو ان کو دھوتے ہیں ، یہ سن کر ہم دونوں نے وہ سوئیٹر اُٹھائے اور بہن کے پیچھے پیچھے چل پڑے، باہر صحن میں بہن نے پانی سے بھرے ٹب میں وہ سارے سوئیٹر ڈال دیئے پھر ہم تینوں اس میں چھپا چھپ کرنے لگے، اس بیچ میں امّی کی آنکھ کھلی اور ہم کو نہ پا کر وہ باہر صحن میں آئیں تو ہماری کارستانی دیکھی تو محض اتنا کہا، تھوڑا آرام کرلیتے تم لوگ، ارے یہ کیا ، اب ان کو سوکھنے میں کتنا وقت لگ جائے گا۔۔۔ میں سوچتی ہوں اگر یہ شرارت ہمارے بچوں نے کی ہوتی تو پہلے تو ایک زور کی ڈانٹ پڑتی اس کو پھر ایک لمبی تقریر شروع ہو جاتی۔۔۔ امی نے اس کچھ نہیں کہا مگر رات کو کہنے لگیں کہ اس طرح خاموشی سے اور چھپ کر کام کرنے سے نقصان ہو سکتا ہے، بڑی بہن سے کہا کہ تم کرسی سے گر سکتی تھیں، زیادہ دیر پانی میں کھیلنے سے نزلہ زکام ہو جاتا اور اب سردیاں بھی شروع ہونے والی ہیں۔۔۔ اس وقت بھی اپنا نہیں کہا کہ تم لوگوں کی اس حرکت کی وجہ سے میرا کام بڑھ گیا کیا کیا کروں میں ، گھر بھی دیکھوں، بچے بھی دیکھوں اور اوپر سے یہ شرارتیں۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم سب بہن بھائی اپنی امّی کو اپنے ہاتھ کے چھالے کی طرح رکھتے ہیں، انہوں نے ہم کو محبت کے ساتھ ساتھ عزت بھی دی۔۔

آج جو لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ بچے بات نہیں مانتے، عزت نہیں کرتے، خیال نہیں رکھتے اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے وہی کریں گےجو آپ نے ان کے ساتھ کیا۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے روّئیے جو کہ ہم کو لگتا ہے کہ کوئی خاص معٰنی نہیں رکھتے وہ بچوں کے چھوٹے اور کم سِن ذہنوں میں بہت گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔

اگر ہم بچوں کو عزّت دیں گے ، پیار دیں گے اور ان سے شفقت سے پیش آئیں گے تو نا صرف ہم ان کا بچپن حسین بنائیں گے بلکہ اپنے لیئے بہترین صدقہ جاریہ چھوڑ کر جائیں گے۔

*************

Comments


Subscribe Form

©2020 by Baithak. Proudly created with Wix.com

bottom of page