top of page

بس تھوڑا سا وقت۔۔۔

  • Writer: Baithak | بیٹھک
    Baithak | بیٹھک
  • Jun 12, 2020
  • 7 min read

از قلم: سبین محبوب / سبزواری



ree

میں یونہی خاموش بیٹھی سب کو آتے جاتے اور کام کرتے دیکھ رہی تھی۔ ہر کوئی جلدی میں نظر آتا تھا۔ کسی کو آفس جانے کی جلدی تھی تو کسی کو کالج جانے کی۔ میری خاموش نگاہیں بس یہ کھوجنے میں لگی ہوئی تھیں کہ کیا یہ واقعئی اتنے مصروف ہیں یا مجھ کو محسوس ہو رہے ہیں ۔بہو بھی کبھی کچن کا چکّر لگاتی تو کبھی چیزیں سمیٹتی نظر آتی۔


"کچھ چاہیئے آپ کو امّاں؟" ( بہو نے میری سوچوں کا محور توڑا)

" نہیں نہیں ، کچھ نہیں۔" ( میں نے جیسے چوری پکڑے جانے پر کہا)


میرا جواب سنتے ہی وہ باہر چلی گئی جیسے اُسے اطمینان ہوگیا ہو کہ مجھے واقعئی کچھ نہیں چاہیئے، اُسے میری آنکھوں کا خالی پن محسوس ہی نہیں ہوا نہ ہی میرے چہرے کی ویرانی نظر آئی جو شاید کسی کے تھوڑی دیر میرے ساتھ بیٹھنے اور باتیں کرنے سے دور ہو سکتی تھی۔ یہی سوچتے سوچتے میرا ذہن ماضی کی یادوں میں گم ہوتا چلا گیا۔


ایسا ہی ایک دن تھا،جب میں اپنی دادی کو بڑی مشکل سے ٹال کر اُن کے کمرے سے جلدی سے باہر نکلی تھی۔ان کی وہی پرانی باتیں جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں۔میں لاؤنج کی سیڑھیاں چڑھتی اوپر اپنے کمرے میں جانے کو تھی کہ دادی کی آواز آئی،

" سارہ بیٹی ذرا دو منٹ ادھر تو آنا"

"جی دادی" کہتی میں واپس پلٹی انکے کمرے میں گئی اور ان سے پوچھا ،" کچھ چاہیئے آپ کو؟"

دادی نے کہا،" نہیں کچھ نہیں چاہیئے ، بس تھوڑی دیر کو بیٹھو میرے پاس۔"

میں اپنے تاثرات چھپاتے ہوئے ان کے بیڈ کے ساتھ رکھی کُرسی پر عجلتی انداز سے ٹِک گئی، کہ جیسے موقع ملتے ہی بھاگ جاؤں گی۔

بیٹھتے ہی میں نے دادی سے کہا، " جی کہیئے"

وہ جن کے پاس کرنے کو کوئی خاص بات نہیں تھی کہنے لگیں،" آج گرمی کل سے کچھ زیادہ ہے ناں؟"

میں نے دل میں سوچا کہ لو ، کیا یہ پوچھنے کے لیئے بلایا تھا مجھے؟ مگر اپنے اوپر تھوڑا قابو پاتے ہوئے کہا :" جی دادی، آپ کا اے – سی تیز کردوں کیا؟"

دادی نے کہا،" نہیں اے-سی تو ٹھیک ہے میں ویسے ہی پوچھ رہی تھی۔"

پھر وہ کہنے لگیں کہ جب ہم کالج جاتے تھے تو ایسی ہی گرمی ہوتی تھی۔ ہم تانگے میں واپس آتے تھے، گھر پہنچتے پہنچتے برا حال ہو جاتا تھا، جیسے ہی گھر پہنچتے۔۔۔

"تو آپ کی امّی نے ستّو کا شربت تیار کیا ہو ا ہوتا تھا آپ کے لیئے۔۔۔۔ ( اس سے پہلے کہ دادی کہتیں ، میں بول پڑی)

وہ کہنے لگیں " ہاں ہاں پھر ہم نہا دھو کر شربت پیتے تو جیسے ٹھنڈ سی پڑ جاتی تھی۔۔۔"

جی اتنی ٹھنڈ کہ اس اے- سی کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی۔۔۔۔ ہے ناں؟

میں پھر بیچ میں بول پڑی تو دادی تھوڑا کھسیا کر بولیں ۔۔ہاں!

(میں یہ قصّہ اور اس جیسے کئی قصّے اور باتیں کئی بار دادی کی زبانی سن چکی تھی اسی لیئے یہ مجھ کو از بر تھے اور سچ پوچھیں تو مجھ کو ان میں کوئی دلچسپی نہیں تھی) میرا خیال تھا کہ میرے اس طرح فوراً فوراً جواب دینے سے دادی سمجھ جائیں گی کہ میں بور ہو رہی ہوں اور وہ مجھ کو جانے دیں گی مگر وہ تو جیسے جان کر انجان بنی ہوئی تھیں۔ پھر میں نے ڈھیٹ بنتے ہوئے کہا، "دادی میں ذرا پڑھنے جا رہی تھی، کل ٹیسٹ ہے ناں"

دادی نے کہا،" اچھا اچھا ، ہاں بیٹی جاؤ، اتنا وقت ضائع کر دیا میں نے تمہارا"

یہ سنتے ہی میں سر پٹ بھاگی،کہ مبادا ان کا ارادہ بدل ہی نہ جائے۔

کمرے میں آ کر میں نے سکون کا سانس لیا، اے-سی چلا کر میں اپنا فون لے کر لیٹ گئی، " چلو بھئی ذرا انسٹا پر دیکھا جائے کیا چل رہا ہے ہمارے فنکاروں کی دنیا میں"

شام کو جب ابّو آفس سے آئے تو ہم سب چائے کے لیئے لاؤنج میں جمع ہو گئے، دادی بھی باہر آ گئیں۔ امّی نے سب کو چائے دی اور اپنا کپ لے کر فون ملانے لگیں، دادی کی نظریں ابّو پر تھیں جو کسی کو میسج کرنے میں مصروف تھے، دادی کی نظروں کو محسوس کرتے ہوئے اُنہوں نے نظریں اُٹھا کر اُنہوں نے پوچھا، " کچھ چاہیئے امّاں؟" دادی نے خجالت سے کہا ،" نہیں نہیں ، کچھ نہیں، بس دیکھ رہی تھی کہ تم بہت کمزور لگ رہے ہو"

ابّو نے ہنستے ہوئے کہا، " ارے نہیں امّاں میں کمزورنہیں ہوا، آپ کی نظر کمزور ہو گئی ہے۔" اس پر ہم سب ہنس پڑے۔ دادی بھی پھیکے سے انداز میں مسکرا دیں۔ ہم بہن بھائی اپنی باتوں میں لگے ہوئے تھے، ابّو چائے کا کپ لے کر اپنے کمرے میں چلے گئے ، امّی شاید خالہ سےفون پر بات کر رہی تھیں، ان کی باتیں ابھی تک جاری تھیں۔ دادی چہرے پر عجیب تاثرات لیئے یونہی چائے اور بسکٹ سے کافی دیر تک دل بہلاتی رہیں، یہ جانچنا مشکل تھا کہ وہ ہم کو مطمئن اور مصروف دیکھ کر اطمینان میں ہیں یا ہم کو مگن دیکھ کر یاسیت میں۔

ایک ایک کر کے ہم سب اپنے کمروں میں چلے گئے یہ خیال کیئے بغیر کہ دادی ابھی تک وہیں بیٹھی ہیں۔ امّی فون کال سے فارغ ہوئیں تو دادی سے پوچھا ،" کچھ چاہیئے آپ کو امّاں؟" ( گویا کہ یہ پوچھ رہی ہوں کہ ابھی تک یہاں کیوں بیٹھی ہیں؟)

دادی نے کہا :"نہیں بس کمرے میں جا ہی رہی تھی، جا کرذرا نماز قرآن پڑھوں۔"

یہ روزکا ہی معمول تھا۔ ایک دن میں امّی کے ساتھ باورچی خانے میں کیک بنا رہی تھی کہ عمر (میرے چھوٹے بھائی ) نے آکر کہا " دادی تم کو آوازیں دے رہی ہیں اور تم یہاں ہو"

میں نے کہا: " مجھ کو تو کوئی آواز نہیں آئی، تم سن لیتے کیا کہ رہی ہیں وہ"

اس نے کہا: " نہ بابا پورے دس منّٹ ان کے پاس بیٹھ کر آیا ہوں ، اب تمہاری باری ہے"

یہ کہ کر وہ باہر بھاگ گیا۔ میں نے برا سا منہ بنا کر امّی کو دیکھا، امّی نے کہا : " چلی جاؤ، دو چار منّٹ میں کوئی بہانہ کر کے اُٹھ جانا"

میں تُن پُھن کرتی دادی کے کمرے میں آئی تو دیکھا وہ بیٹھے بیٹھے سو گئی ہیں، میں نے موقع غنیمت جانا اور باہر آ گئی۔ رات کو امّی نے پوچھا : " کیوں بُلا رہی تھیں وہ تم کو؟ "

میں نے کہا: " کچھ نہیں میں گئی تو ان کی آنکھ لگ گئی تھی"

میں نے امّی سے کہا: " کوئی کام وام نہیں ہوتا ان کو بس وہی پرانے قصّے سنانے کے لیئے بلاتی ہیں، یا پھر کوئی دین پر لیکچر دینا ہوتا ہے یا گھرداری کے گُر بتانے ہوتے ہیں"

امّی نے کہا: " ہاں بھئی ان کو کیا پتا کتنا مصروف دن گزرتا ہے، بیسیوں کام ہوتے ہیں، اب بندہ ان کے ساتھ لگ کر تو نہیں بیٹھ سکتا ، کہ بیٹھ جاؤ اور باتوں سے پیٹ بھر لو"

میں نے ابّو کو بہت ہی کم دیکھا ہے دادی سے باتیں کرتے ہوئے ، کبھی اگر بیٹھ بھی جاتے ہیں تو یہی سمجھا رہے ہوتے ہیں کہ " امّاں شکرگزار بنیں، اللہ کا کرم ہے کہ ہم سب ساتھ رہ رہے ہیں ایک ہی چھت کے نیچے، اب یہ کیا بات ہوئی کہ اکیلے بیٹھے بیٹھے دل گھبرا جاتا ہے۔ "


بس اسی طرح ایک رات اکیلے کمرے میں دادی سوئیں تو صبح اُٹھ نہ سکیں۔ سوتے ہی میں ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ چند دن تو فطری دُکھ اور افسوس میں گزرےپھر اس کے بعد زندگی اپنی ڈگر پر آگئی۔

وقت گزرتا گیا اور میری شادی ہو گئی، میں اپنے شوہر کے ہمراہ دوسرے شہر آگئی۔ سب رشتہ داروں اور اپنوں سے دور زندگی تھوڑی مشکل سی لگی مگر بچوں کے بعد یہ مشکل مصروفیت میں بدل گئی۔ میں اپنے گھر اور بچوں میں مگن ہو گئی۔ بچے بڑے ہوتے گئے ان کی پڑھائی اور شادی سے فارغ ہونے کے بعد سوچا کہ اب تھوڑا سکون کا سانس لوں گی۔

زندگی کی بھاگ دوڑ میں میں اور میرے شوہر ایک دوسرے کے چہروں کے خدوخال ہی جیسے بھول گئے تھے۔ ہم بوڑھے ہو چکے تھے۔بیٹی شادی ہو کر ملک سے باہر چلی گئی تھی اور بیٹا اپنی بیوی کے ساتھ ہمارے ساتھ ہی رہتا تھا۔ ایک دن بیٹے نے آکر بتایا کہ اس کا تبادلہ اسلام آباد ہو گیا ہے ، لہذہ وہ اپنی بیوی کو لے کر وہاں چلا گیا۔

یہ محنت سے بنایا ہو گھر ہم دونوں میاں بیوی کو کاٹ کھانے کو دوڑنے لگا۔ اس کے در و دیوار سایئں سایئں کرنے لگے ہم اب اس کی دیکھ ریکھ نہیں کر سکتے تھے۔بیٹے کو گئے چھ سال ہو چکے تھے اب اس کے تین بچے تھے ، اسی اثنا میں ایک دن میں اکیلی رہ گئی۔ شوہر کی وفات کے بعد بیٹا مجھے اپنے گھر لے گیا اور اس مکان کو تالا لگا دیا گیا۔

یہا ں شروع شروع میں بیٹے اور بہو دونوں نے خاصا وقت میرے ساتھ گزارا ، مگر زندگی شاید اتنی تیز بھاگ رہی تھی کہ اس کی دوڑ میں یہ لوگ مجھ کو ایک کمرے میں چند ضرورت کی اشیاء کے ساتھ چھوڑ کہ جیسے بھول ہی گئے کہ مجھے ان کے وقت کی بھی ضرورت ہے۔میری بس یہ چاہت تھی کہ یہ بس تھوڑا وقت میرے ساتھ گزار لیا کریں۔ تھوڑی دیر کو بیٹھ جایا کریں ، میرے گزرے وقت کے قصّے کہانیاں سن لیا کریں ، میرا جی ہلکا ہونے دیا کریں۔

جب کبھی میں ملتجی نظروں سے ان کی طرف دیکھتی ہوں تو آگے سے یہ جملہ سننے کو ملتا ہے : " کچھ چاہیئے امّاں؟ " جس سے میں اندرتک سے شرمندہ سی ہو جاتی ہوں کہ یہ میری اولاد جس کو ساری زندگی میں بس دیتی ہی آئی ہوں کبھی اپنا وقت،کبھی اپنی توانائی تو کبھی اپنی نیندیں اور آرام ، یہ میری نظروں کا مفہوم ہی نہیں جانتی کہ میں کیا چاہتی ہوں۔ اب یہ کیسے کہوں کہ "ہاں چاہیئے، مجھ کو تم لوگوں کا تھوڑا وقت اور توجّہ چاہیئے، چند لمحے چاہیئں جن میں میرے ماضی کی باتیں سن کر تم بھی ویسے ہی لطف اندوز ہو سکو جیسے میں تمہارے اسکول کے قصّے سن کر ہوا کرتی تھی جو تم نے ناجانے مجھ کو کتنی ہی بار سنائے تھے، اور میں نے بنا تم کو ٹوکے اور یہ احساس دلائے سنے تھے کہ میں یہ تم سے کئی بار سن چکی ہوں "


ان باتوں کا احساس مجھ کو اب ہوتا ہے ، جب میں خود اس کیفیت سے گزر رہی ہوں، میری دادی کی پُکار اکثر میرے کانوں میں گونجتی ہے: " سارہ ذرا دو منٹ ادھر تو آنا بیٹا۔۔۔" وہ بھی ایسے ہی اکیلا پن محسوس کرتی ہونگی جیسا میں اب کرتی ہوں۔اُن کو بھی میرے بس چند لمحوں کا ساتھ چاھیئے ہوتا ہوگا جس میں وہ اپنا ماضی جی سکیں۔

ہمیں اپنےچھوٹوں سے کچھ نہیں چاہیئے ،اگر چاہیئے بھی تو بس ان کی تھوڑی تھوڑی سی توجّہ اور تھوڑا سا وقت۔

Comments


Subscribe Form

©2020 by Baithak. Proudly created with Wix.com

bottom of page