آخر کب تک؟
- Baithak | بیٹھک
- Sep 12, 2020
- 4 min read
Updated: Sep 13, 2020
تحریر: سبین محبوب / سبزواری

اکثر جگہ یہ سننے میں آیا ہے کہ “ماوؤں کو چاہیئے کہ وہ اپنے بیٹوں کی تربیت اچھی کریں ان کو عورت کا احترام سکھائیں، یہ جو بھی حالات ہو رہے ہیں اس میں ماوؤں کی ناقص تربیت کا قصور ہے”
تربیت تو ہر ماں اچھی ہی کرتی ہے، لیکن فرق آیا ہے تو ماحول میں آیا ہے، پہلے گھر گھر فحاشی عام نہیں تھی اب ہر گھر کسی نہ کسی طریقے سے اس کی لپیٹ میں ہے۔ ڈرامے ہوں، فلمیں ہوں یا پھر اشتہار ہوں، ان سب میں ایسا مواد موجود ہوتا ہے جو ہیجان کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ رہی سہی کسر انٹرنیٹ نے پوری کردی ہے ، کوئی فحش ویب سائیٹ نہ بھی دیکھنا چاہے پھر بھی ہر ویب سائیٹ میں یا گیم میں ایسے اشتہار آتے ہیں کہ زیادہ تر مرد اس کے زیرِ اثر آجاتے ہیں ۔۔۔ اس طرح کا گند دیکھ کر ان پر جو ہیجانی کیفیت طاری ہوتی ہے وہ ان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے، اب جب یہ باہر نکلتے ہیں اس کیفیت کے ساتھ تو بس پھر عورت ہو، بچّی ہو یا بھی بلّی ہو ، کوئی بھی ان کی ہوس سے نہیں بچتی۔
سوال یہ اٹھانا چاہیئے کہ کیوں ایسے مواد کی ترویج کی جاتی ہے؟ کیوں ہماری اداکارائیں نیم برہنہ ہو کر فوٹو شوٹ کرواتی ہیں؟ کیوں وقار زکا جیسے لوگ گھٹیا پروگرامز کرتے ہیں؟ یہ تو پیسہ بنا کر سائڈ پر ہو جاتے ہیں مگر ہماری قوم جو کہ پہلے ہی دین سے دور ہے جو پہلے ہی ذہنی دباؤ اور تناؤ کا شکار ہے ، ایسے مواد کی وجہ سے سارا تناؤ اور ہیجانی دباؤ ایک معصوم عورت پر نکال دیتی ہے۔
کبھی ذرا انسٹا گرام پر ہماری اداکاراؤں کی ادائیں دیکھیں، کبھی ذرا ویٹ جیسی کریمز کے اشتہار دیکھیں، کبھی ذرا ہماری غلاظت سے بھری فلمیں دیکھیں پھر اسلام کی روشنی میں اس بات پر غور کریں کہ کیوں کہا ہمارے رب نےکہ عورت پردے میں رہے، ظاہر ہے اسی لیئے کہ مرد کی ایسی خواہشات اس کی آزمائش ہیں لہذہ بے پردہ ہو کر ادائیں دکھا کر اُس کو نہ آزمائیں ورنہ وہ جانور بننے میں دیر نہیں لگائے گا۔۔۔ اس پر یہ کہنا کہ مرد اپنی نگاہ نیچی رکھے اس کا بھی بے شک حکم ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر وہ اس حکم کی پاسداری نہیں کر رہا تو ہم تو کریں۔۔ کبھی ہم عورتوں نے اس بات پر کیوں نہیں آواز اُٹھائی کی میڈیا پر عورت کو ایسی حالت میں دکھانا بند کرو، ایک نیم برہنہ آئے گی تو ہم سب کی بے عزّتی ہے، کبھی ہم نے نہیں کہا کہ یہ جو آئیٹم سونگ کے نام پر عورت کو مردوں کی نظروں کو ٹھنڈک پہنچائی جا رہی ہے وہ بند کرو۔۔ خود ہم نے اپنے آپ کو مفت کا مال بنایا ہے اور اب جب لوٹا جا رہا ہے تو دُکھ ہو رہا ہے، شدید تکلیف ہوتی ہے جب کوئی بھی ایسے واقعے کا شکار ہوتا ہے، کیوں کہ وہ اس سارے منحوس چکر کی لپیٹ میں آجاتا ہے جو چلا کوئی اور رہا ہے۔
میں یہاں مرد کے اس عمل کو justify نہیں کر رہی محض یہ بتانا چاہ رہی ہوں کہ اس میں ماں کی تربیت کا قصور نہیں ہے، ہر عمل کی ذمہ دار ماں کی تربیت نہیں ہوتی بلکہ عوامل ، حالات اور واقعات بھی ہوتے ہیں۔ فطرت بھی ہوتی ہے اور صحبت بھی ہوتی ہے۔
ہمارے ملک کے حالات ہمارے مُنہ پر اللہ کی طرف سے پڑا ہوا طمانچہ ہیں، مُلک مانگا تھا ہم نے اسلام کے نام پر اور اسلام کا ہی نام و نشاں نہیں ہے اس میں۔ ہم دغا باز اور بے وفا قوم ذرا سوچیں کہ کیا ہم نے اللہ سے بے وفائی نہیں کی؟ ہم نے اسلام کا نام لے کر ملک تو لے لیا پھر کیا ہم نے اسلام کو رسوا نہیں کیا یہاں؟ کیا ہم نے اللہ کے احکامات پر سوال نہیں اُٹھایا؟ کیا ہم اللہ کی تجویز کردہ سزاوؤں کو ظالمانہ نہیں کہتے؟ کیا ہم پردے کا مزاق نہیں اُڑاتے ؟ کیا ہم اسلامی اقدار کو دقیانوسی نہیں کہتے؟ کیا ہم عورتیں اس بات کا پر اَنا نہیں دکھاتیں کہ اللہ نے فرمایا " اور اپنے گھروں میں قرار سے بیٹھی رہو"۔ کیا ہمارے مرد جانور صفت نہیں بن گئے۔ کوئی ایک جو اسلام کو نافذ کرنے کی بات کرے، کوئی ایک جو فاطمہ اور عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) جیسی زندگی کی بات کرے، کوئی ایک جو محمد ﷺ کا طرزِ زندگی چاہے۔
بس ہم سے مذاق اُڑوا لو اسلامی اقدار کا، اور پھر بھی ہم یہ چاہیں کہ اللہ ہم پر کرم کرے۔۔۔۔ ارے دھوکا تو ہم نے دیا ہے یہ کہ کر کہ اے اللہ ایسی سر زمین دے دے جہاں اسلام کا بول بالا ہو، جہاں ہم تیرے حکم کے مطابق زندگی گزاریں اللہ نے تو ہم پر احسان کیا اور ہم احسان فراموش لوگ اُسی کے بتائے ہوئے اصولوں پر سوال اُٹھانے لگے، اب جب ایک کے بعد دوسری مصیبت آ رہی ہے تو ہم ایک دوسرے کا گریبان کھینچ رہے ہیں۔
ہم کو اپنے آپ کو ٹٹولنا ہوگا کہ کیا کوئی تھوڑی سی بھی رمق ہے ہم میں محمد ﷺ یا عائشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کی۔
ہم سب Cause کو بھلا کر Effect کے پیچھے پڑے ہیں۔ جب تک Cause کا علاج نہیں کریں گے یہ ہی Effect آتا رہے گا۔
میں نے مارکیٹنگ میں پڑھا تھا :
If you want to figure out the reason for effect then first check what is the cause, once you hit the cause you can easily control the effect."
یہ اصول صرف مارکیٹنگ کے لیئے نہیں ہے یہ پوری زندگی کے لیئے ہے۔ محض مجرم کو سزا دے کر رُک نہ جائیں، اس جرم کی وجہ تک پہنچیں اور اسکو جڑ سے ختم کریں۔ آخر کب تک ہم اصل وجہ کو جانتے ہوئے بھی انجان بنے رہیں گے؟ آخر کب تک ہم خود کو اس دلدل میں گراتے چلے جائیں گے؟
بہت اہم لمحاتِ فکریہ! صرف فکر ہی نہیں کرنی کُچھ عملدرآمد بھی ہونا چاہیے!