top of page

مسلمانوں کا عدل

  • Writer: Baithak | بیٹھک
    Baithak | بیٹھک
  • May 14, 2020
  • 4 min read

Updated: May 15, 2020

مصنف: نامعلوم

انتخاب: محبوب الرحمٰن

ثمرقند سے طویل سفر طے کر کے آنے والا قاصد ، سلطنت اسلامیہ کےحکمران سے ملنا چاہتا تھا۔ اس کے پاس ایک خط تھا جس میں غیر مسلم پادری نے مسلمان سپہ سالار قتیبہ بن مسلم کی شکایت کی تھی۔ پادری نے لکھا ! "ہم نے سنا تھا کہ مسلمان جنگ اور حملے سے پہلے قبول اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر دعوت قبول نہ کی جائے تو جزیہ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر کوئی ان دونوں شرائط کو قبول کرنے سے انکار کرے تو جنگ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔

ree

مگر ہمارے ساتھ ایسا نہیں کیا گیااور اچانک حملہ کر کے ہمیں مغلوب کر لیا گیا ہے۔ یہ خط ثمر قند کے سب سے بڑے پادری نے اسلامی سلطنت کے فرماں روا عمر بن عبد العزیز کے نام لکھا تھا۔ دمشق کے لوگوں سے شہنشاہ وقت کی قیام گاہ کا معلوم کرتے کرتے وہ قاصد ایک ایسے گھر جا پہنچا کہ جو انتہائی معمولی اور خستہ حالت میں تھا۔ایک شخص دیوار سے لگی سیڑھی پر چڑھ کر چھت کی لپائی کر رہا تھا اور نیچے کھڑی ایک عورت گارا اُٹھا کر اُسے دے رہی تھی۔ جس راستے سے آیا تھا واپس اُسی راستے سے اُن لوگوں کے پاس جا پہنچا جنہوں نے اُسے راستہ بتایا تھا۔ اُس نے لوگوں سے کہا میں نے تم سے اسلامی سلطنت کے بادشاہ کا پتہ پوچھا تھا نہ کہ اِس مفلوک الحال شخص کا جس کے گھر کی چھت بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔ لوگوں نے کہا، "ہم نے تجھے پتہ ٹھیک ہی بتایا تھا، وہی حاکم وقت عمر بن عبد العزیز کا گھر ہے." قاصد پر مایوسی چھا گئی اور بے دلی سے دوبارہ اُسی گھرپر جا کر دستک دی،جو شخص کچھ دیر پہلے تک لپائی کر رہا تھا وہی اند ر سے نمودار ہوا۔ قاصدنے اپنا تعارف کرایا اور خط عمر بن عبدالعزیز کو دے دیا۔ عمر بن عبدالعزیز نے خط پڑھ کر اُسی خط کی پشت پر لکھا : عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے ثمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام؛ ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے۔ مہر لگا کر خط واپس قاصد کو دیدیا۔ ثمرقند لوٹ کر قاصد نے خط کا جواب اور ملاقات کا احوال جب پادری کو سنایا ، توپادری بھی مایوس اور افسردہ ہو گیا ۔ اس نے سوچا کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا ؟اُنہیں یقین تھا کاغذ کا یہ ٹکڑا اُنہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔ مگر کوئی اور راستہ بھی نہ تھا چنانچہ خط لیکر ڈرتے ڈرتے امیر لشکر اور حاکم ثمرقند کے پاس پہنچے ۔ حاکم نے خط پڑھتے ہی فورا ایک قاضی کا تعین کردیا جو اس کے اپنے خلاف ثمرقندیوں کی شکایت سن سکے۔ قاضی نے پادری سے پوچھا، کیا دعویٰ ہے تمہارا ؟ پادری نے کہا : قتیبہ کے لشکر نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اِس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔ قاضی نے حاکم کو دیکھ کر پوچھا، کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں ؟ حاکم نے کہا : قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے۔ ثمرقند ایک عظیم ملک تھا، اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے، بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔ ثمرقند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اورثمرقند پر قبضہ کر لیا۔ قاضی نے حاکم کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا : میری بات کا جواب دو، تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی ؟ حاکم نے کہا : نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔ قاضی نے کہا : میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔ اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو عدل و انصاف کی وجہ سے ہی بخشی ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے۔ میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور انکے عہدہ داران بمع اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک اور مال غنیمت چھوڑ کرثمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور ثمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔ اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیئے بغیر نہ آیا جائے۔ پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا وہ ناقابل یقین تھا۔چند گھنٹوں کے اندر ہی مسلمانوں کا عظیم لشکر قافلہ در قافلہ شہر کو چھوڑ کے جا چکا تھا۔ ثمر قندیوں نے اپنی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا کہ جب طاقتور فاتح قوم کمزور اور مغلوب قوم کو یوں دوبارہ آزادی بخش دے۔ ڈھلتے سورج کی روشنی میں لوگ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کرنے لگے کہ یہ کیسا مذہب اور کیسے پیروکار ہیں ۔ عدل کا یہ معیار کہ اپنوں کے خلاف ہی فیصلہ دے دیں۔ اور طاقتور سپہ سالار اس فیصلہ پہ سر جھکا کر عمل بھی کر دے۔ تاریخ گواہ ہے کہ تھوڑی ہی دیر میں پادری کی قیادت میں تمام شہر کے لوگ گھروں سے نکل کر لشکر کے پیچھے سرحدوں کی طرف دوڑے اور لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے ہوئے اُن کو واپس لے آئے کہ یہ آپ کی سلطنت ہے اور ہم آپ کی رعایا بن کر رہنا اپنے لئے ٖفخر سمجھیں گے۔ دینِ رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصہ تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔ کبھی رہبر دو عالم حضرت محمد ﷺ کی امت ایسی ہوا کرتی تھی۔

2 Comments


t.subzwari
May 16, 2020

سب کہاں کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہو گئیں خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں!

Like

beenish108
May 14, 2020

SubhanAllah

Like

Subscribe Form

©2020 by Baithak. Proudly created with Wix.com

bottom of page