top of page

توقع کا پیالہ

  • Writer: Baithak | بیٹھک
    Baithak | بیٹھک
  • Sep 28, 2020
  • 5 min read

تحریر: غزالہ خالد

انتخاب : سبین محبوب / سبزواری

ree

سیانے کہتے ہیں کہ: " زندگی میں سکون چاہتے ہو تو کبھی کسی سے کوئی توقع نہ رکھو کیونکہ توقع کا پیالہ ہمیشہ ٹھوکروں کی زد میں رہتا ہے "

بات یقیناَ ٹھیک ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کسی نہ کسی کمزور بندے کے دل میں خیال آہیجاتا ہے کہ" ہاۓ ۔۔ فلانے وقت ہم نے اس کا اتنا ساتھ دیا تھا اور اس کا برا وقت گذرتے ہی کیسے اس نے نظریں پھیر لیں "

یعنی ہمیں توقع ہوتی ہے کہ جس شخص کا ہم نے برے وقت میں ساتھ دیا تھا وہ ساری زندگی ہمارا احسان مند رہے ۔ اسی طرح خواتین کی کچھ توقعات دلچسپ بھی ہوتی ہیں مثلاً " یہ ہمارے گھر آۓ تھے تو ہم نے کھانا کھلایا تھا ہم ان کے گھر گئے تو انہوں نے چاۓ کو بھی نہیں پوچھا " یا

" ہم نے ان کی ہاں شادی میں پانچ ہزار دۓ تھے اور انہوں نے ہمیں پانچ سو پر ٹرخا دیا "

اسی طرح رویوں سے بھی توقعات وابستہ ہو جاتی ہیں جیسے کہ " میں ہمیشہ فلاں کو سلام میں پہل کرتی ہوں لیکن وہ مجھے دیکھ کر منہ پھیر لیتی ہے "

" میں اس سے مسکرا کے ملتی ہوں مگر اس کی تیوریاں چڑھی ہی رہتی ہیں " وغیرہ وغیرہ۔

یہ چند مثالیں ہیں ورنہ توقعات کی لسٹ بہت طویل ہوتی ہے ہر قدم پر توقع، ہر معاملے میں توقع ، چاہے وہ خانگی ہو یا خاندانی،انفرادی ہو یا اجتماعی اور انہی توقعات کے سبب کہ جب وہ پوری نہیں ہوتیں معاملات خراب ہوتے ہیں ، تعلقات میں دراڑیں پڑتی ہیں ،رشتوں میں دوریاں بڑھتی ہیں اور انسان سب سے زیادہ اپنے آپ کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرتا ہے کیونکہ دوسرے کو تو خبر ہی نہیں ہوتی کہ اس کی کس بات سے ہم اذیت کا شکار ہو رہے ہیں شاید اسی لئے سیا نے کہہ گئے کہ کسی سے کوئی توقع ہی نہ کرو۔

حالانکہ یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہےکیونکہ ہمارے جیسے اکثر لوگوں کا جواب ہوتا ہے کہ

" بھئی انسان ہیں فرشتے تھوڑی ہیں. جب کسی کے لئے کچھ کرتے ہیں تو تھوڑی بہت توقع رکھنا انسا نی فطرت کا تقاضا ہے " ۔

اگر انسانی فطرت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو واقعی یہ بات بھی ٹھیک ہے کیونکہ کبھی کبھی ایسا انسان جو مثبت سوچ ومضبوط کردار کا مالک ہوتا ہے اور توقعات بھی بہت کم رکھتا ہے لیکن پھر بھی ایسا ہو ہی جاتا ہے کہ چاہے اسے پوری دنیا سےکوئی توقع نہ ہو لیکن اس کی زندگی میں کوئی ایک انسان ایسا ضرور ہوتا ہے کہ جس سے وہ یہ توقع رکھتا ہی ہے کہ " یہ " میرےساتھ کبھی ایسا کر ہی نہیں سکتا مگر جب "وہ" ایسا کر لیتا ہے تو تکلیف نا قابل برداشت ہوتی ہے ۔ مثال اس مندرجہ ذیل شعرمیں موجود ہے ،

لوگوں سے توقع تھی کہ وہ دیوانہ سمجھتے

سرکار ! مگر آپ تو ایسا نہ سمجھتے

یعنی شاعر کو دنیا سے تو یہی توقع تھی کہ وہ دیوانہ سمجھے گی لیکن شاعر کی زندگی میں بھی ایک سرکار ایسی " تھی یا تھے " کہ جن سے شاعر کو یہ توقع بالکل بھی نہیں تھی کہ وہ بھی انہیں دیوانہ قرار دے دیں گے اسی طرح ہم سب کی زندگیوں میں بھی ایک یا ایک سے زیادہ " سرکار " ایسے ضرور مو جود ہوتے ہیں جو اگر توقعات پر پورا نہ اتریں تو نہایت تکلیف کا باعث بنتے ہیں ۔

یہ سب باتیں جاننے اور ماننے کے باوجود مجھے اکثر یہ خیال آجاتا تھا کہ توقعات سے کیسے بچا جائے ؟ میں بھی ایک کمزورانسان ہوں بشریت کے تقاضے کے آگے ہار جایا کرتی تھی بہت دل دکھتا تھا، کئی کئی دن افسردہ رہتی ، اپنے میاں اور بھائی کےسمجھانے پر میرا بھی یہی جواب ہوتا تھا کہ

" انسان ہیں فرشتے تھوڑی ہیں توقع ہو ہی جاتی ہے "

رویے تکلیف دیتے تھے اب بھی دیتے ہیں لیکن شدت کم ہوگئی اور اس کا باعث خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوا ایک نیک خیال اورایک موٹیویشنل اسپیکر کے لیکچر میں پیش کی گئی یہ تجویز بنی کہ ،

" دوسروں سے جڑی توقعات کو بھول جائیں صرف اپنے سے جڑی توقعات پر نظر رکھیں تو زندگی بہت آسان ہوجاۓ گی "۔

موٹیویشنل اسپیکر تو کارپوریٹ لیکچر کے دوران آفسوں میں ایک دوسرے سے پروفیشنل جیلسی کے حوالے سے یہ بات کررہے تھےلیکن غور کیا جائے تو واہ کتنی عمدہ بات ہے اپنی روزمرہ زندگی میں اگر ہم یہ بات پلو میں باندھ لیں تو سکون ہی سکون ہوگا ۔اگررشتوں کے حوالے سے اس بات کو دیکھیں تو اپنی اولاد سے توقعات کو بھول کر وہ سب کرنے کی کوشش کریں جس کی توقع اولاد ہمسے کر رہی ہو۔

اسی طرح والدین سے وابستہ توقعات بھول کر وہ سب کرنے کی کوشش کریں جس کی توقع والدین ہم سے کر رہے ہوں۔

بہو بن کر جائیں تو سسرال سے وابستہ توقعات کو بھول کر اگر ان توقعات پر فوکس کریں جو سسرال والے ہم سے رکھ رہے ہوں توزندگی سہل ہوجاۓگی۔

ساس بنیں تو بہو سے توقع رکھنے کے بجائے اس آنے والی لڑکی کی ان توقعات پر خود پورا اترنے کی کوشش کریں جو وہ آنکھوں میں بسائے ہمارے گھر میں قدم رکھ رہی ہے۔

اسی طرح میاں بیوی کا معاملہ ہے ایک دوسرے سے ڈھیروں توقعات وابستہ کرلی جاتی ہیں اور جب وہ پوری نہیں ہوتیں تو نتائج اچھے نہیں نکلتے اس لیے بہتر ہے کہ اپنے سے جڑی توقعات پر نظر رکھیں اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کریں تو انشاء اللہ راوی چین ہی چین لکھے گا اور اسی اصول پر عمل زندگی کے ہر قدم پر کریں۔

جب توقعات ہی نہیں ہونگی تو گلے شکوے بھی کم ہونگے اور جب پورا فوکس اس بات پر ہوگا کہ لوگوں کو ہم سے جو توقعات ہیں وہ پوری کرنے کی کوشش کی جائے تو پھر چاہے وہ گھر والے ہوں، محلے والے ہوں، دوست ہوں ، میکے والے ہوں، سسرال والے ہوں ،رشتے دار ہوں، آفس کے لوگ ہوں، نوکر ہوں ، ساتھ سفر کرنے والے ہوں یا جو بھی کوئی ہو ہمیں ہمیشہ یہ سوچنا ہے کہ یہ ہم سے کیاتوقع کر رہے ہونگے ؟ یقیناَ اچھی توقع ہی کر رہے ہونگے پھر ہمیں پوری کوشش کرنی ہے کہ ہم ان کی توقعات پر پورا اترنے کی پوری کوشش کریں اور بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔

حدیث شریف میں ہے کہ " اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے"

اس لئے بس لوگوں کو دینا ہے چاہے وہ آپ کا وقت ہو، پیسہ ہو، محنت ہو یا ذرا سی مسکراہٹ ہی کیوں نہ ہو ۔

امید ہے کہ جب ہم کسی کی توقعات پر پورا اتریں گے تو یقیناً صلہ بھی پائںیں گے ورنہ کم از کم سکون و اطمینان تو ضرور ہی نصیب ہوگا ۔مسند احمد کی حدیث مبارکہ ہے کہ،

" نیکی وہ ہے کہ جس سے دل میں سکون اور اطمینان پیدا ہو "

اور کم از کم ایک بات کی تو گارنٹی ہے کہ جب لوگوں سے توقعات ہی نہیں رہیں گی تو گلے شکوے بھی کم ہونگے اور جب گلے شکوے کم ہونگے تو تعلقات میں بہتری آئے گی ایک دوسرے سے مل کر خوشی ہوگی اور صلہ رحمی بڑھے گی۔ مرزا غالب نے تو شاید مایوسی میں یہ شعر کہا ہوگا لیکن اگر میرے مشورے کے تناظر میں دیکھا جائے تو بہترین ہے آپ بھی پڑھیئے۔

جب توقع ہی اٹھ گئی غالب

کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

کیوں ٹھیک کہا ناں؟؟


Kommentarer


Subscribe Form

©2020 by Baithak. Proudly created with Wix.com

bottom of page